اگر کوئی تعلق قائم رکھنے سے خود قولاً یا فعلاً منع کردے تو کیاپھر اس سے تعلق قطع کرنا اسی زمرے میں آئے گا جس کی شریعت میں ممانعت ہے؟یا اس طرح قطع تعلقی کی گنجائش ہے؟
واضح رہے کہ بلاوجہ شرعی قطع تعلقی شریعت میں منع ہے، شریعت میں صلۂ رحمی کا حکم ہے، صلۂ رحمی کو افضل ترین عبادات میں سے شمار کیا ہے، جو شخص صلۂ رحمی کا پاس نہیں رکھتا تو حدیث شریف میں اس کے لیے جہنم جانے کی وعید سنائی گئی ہیں، اور صلۂ رحمی کہتے اس کو ہے کہ جب کوئی قطع تعلق کرے دوسرا اس کے ساتھ بجائے قطع تعلق کے صلۂ رحمی کابرتاؤ کرے، پھر بھی اگر کسی سے ناراضی ہوجائے توتین دن تک شریعت نے اجازت دے رکھی ہے، البتہ تین دنوں سے زیادہ کی اجازت نہیں، کیوں غصہ عمومًاتین دنوں میں ختم ہوجاتا ہے۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص اپنے دوست یا رشتہ دار کو قولًا یا فعلًا منع کرے، اور قطع تعلقی کا اظہار کرے تو اس دوسرے شخص کے لیے شریعت کا حکم ہے کہ وہ تعلق قطع نہ کرے، بلکہ اس کے ساتھ بدستور دوستی اور رشتہ داری قائم رکھے، اگر پھر بھی وہ منع کرتا رہے تو صلۂ رحمی قطع کرنے کا گناہ اس قاطع پر ہوگا دوسرے شخص پر نہیں ہوگا،البتہ اگر کسی کے ساتھ دینی معاملہ میں قطع تعلقی کیا جائے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے میں دینی خرابی اور کمزوری لازم آتی ہو، یا اس کے ساتھ کسی معصیت و نافرمانی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو پھر اس سےصورتًا ظاہرًا دوری کرکے قطع تعلقی کرنا جائز ہے،پھر جب بھی آمناسامنا ہو توصرف سلام کرلیں، اس کے علاوہ صورتوں میں قطع تعلق کے جواز کی گنجائش نہیں۔
فتح القدیر میں ہے:
"هجران المسلم بمنع الكلام معه منهي عنه فلم يعتبر ما يخال داعيا إلى اليمين من جهله وسوء أدبه إذا كان الشارع منعنا من هجران المسلم مطلقا مع علمه بأن الداعي قد يكون كذا وكذا فوجب الاتباع، ونظر فيه بأن الهجران قد يجوز أو يجب إذا كان لله بأن كان يتكلم بما هو معصية أو يخشى فتنة أو فساد عرضه بكلامه فلا نسلم أن الشارع منع الهجران مطلقا فحيث حلف لا يكلمه لا يحكم إلا أنه وجد المسوغ، وإذا وجد اعتبر الداعي فتقيد بصباه وشبيبته ونذكر ما فيه في المسألة التي تليها."
(فتح القدير للكمال بن الهمام، كتاب الأيمان، باب اليمين في الأكل والشرب، (5/ 119)، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)
بخاری شریف میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو قال سفيان لم يرفعه الأعمش إلى النبي صلى الله عليه وسلم ورفعه حسن وفطر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها."
(صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب: ليس الواصل بالمكافي، (8/ 6)، ط: دار الطوق النجاء)
ترجمہ: "سفیان نے بیان کیا کہ اعمش نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ کا حوالہ دے کر نہیں بیان کی ، لیکن حسن اور فطر نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے بیان کی، فرمایا کہ کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کامعاملہ نہ کیا جا رہا ہو، تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔" (از مترجم بخاری)
وفیہ ایضا:
"عن ابن شهاب: أن محمد بن جبير بن مطعم قال: إن جبير بن مطعم أخبره أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "لا يدخل الجنة قاطع."
(صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب إثم القاطع، (8/ 5)، ط: دار الطوق النجاء)
ترجمہ: " ابن شہاب سے رویت ہے ، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے بیان کیا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔" (از مترجم بخاری)
وفیہ ایضا:
"عن أبي أيوب الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام."
(صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب الهجرة وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل لرجل، (8/ 21)، ط: دار الطوق النجاء)
فتح الباری میں ہے:
"وزاد في أول الحديث إن الرحم معلقة بالعرش وليس الواصل بالمكافئ الحديث قوله ليس الواصل بالمكافئ أي الذي يعطي لغيره نظير ما أعطاه ذلك الغير وقد أخرج عبد الرزاق عن عمر موقوفا ليس الوصل أن تصل من وصلك ذلك القصاص ولكن الوصل أن تصل من قطعك قوله ولكن قال الطيبي الرواية فيه بالتشديد ويجوز التخفيف قوله الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها أي الذي إذا منع أعطى وقطعت ضبطت في بعض الروايات بضم أوله وكسر ثانيه على البناء للمجهول وفي أكثرها بفتحتين قال الطيبي المعنى ليست حقيقة الواصل ومن يعتد بصلته من يكافئ صاحبه بمثل فعله ولكنه من يتفضل على صاحبه وقال شيخنا في شرح الترمذي المراد بالواصل في هذا الحديث الكامل فإن في المكافأة نوع صلة."
(فتح الباري لابن حجر، كتاب الأدب، قوله باب ليس الواصل بالمكافئ، (10/ 423)، ط: المكتبة السلفية)
مسند احمدمیں ہے :
"قال عقبة: ثم لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فابتدأته فأخذت بيده فقلت: يا رسول الله، أخبرني بفواضل الأعمال. فقال: " يا عقبة، صل من قطعك، وأعط من حرمك، وأعرض عمن ظلمك."
(مسند أحمد، حديث عقبة بن عامر الجهني، (28/ 570) ط: مؤسسة الرسالة)
عمدۃ القاری میں ہے:
"وقال أبو الزناد: حض النبي صلى الله عليه وسلم على التواصل في الحياة بقوله: (صل من قطعك وأعط من حرمك) . (ولا تقاطعوا ولا تدابروا) وعلى التواصل بعد الموت بالصلاة والتشييع إلى القبر والدعاء له."
(عمدة القاري، كتاب الإيمان، باب اتباع الجنائز من الإيمان، (1/ 273)، ط: دار إحياء التراث العربي)
عون المعبود میں ہے:
"(فوق ثلاث ليال) أي بأيامها وإنما جاز الهجر في ثلاث وما دونه لما جبل عليه الآدمي من الغضب فسومح بذلك القدر ليرجع فيها ويزول ذلك العرض ولا يجوز فوقها وهذا فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."
(عون المعبود، كتاب الأدب، باب في هجرة الرجل أخاه، (13/ 174)، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101735
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن