بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجذوم سے دور رہنے کا حکم


سوال

’’فر من المجذوم فرارك من الأسد‘‘کا مطلب واضح کریں۔

جواب

واضح رہے کہ اس دنیا میں اللہ نے بہت سی چیزوں کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، لیکن حقیقت میں سارے اسباب اپنا اثر دکھانے میں اللہ کے حکم کے پابند ہیں؛ لہذا نبی کریمﷺ نے دو مختلف موقعوں پر ایسا عمل کیا جس سے یہ دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں، ایک مرتبہ نبی کریمﷺکے پاس ایک مجذوم (جذام کی بیماری والا شخص، جس بیماری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پھیلتی ہے)آیا تو آپﷺ نے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار آدمی سے یقینی طور پر بیماری لگ جانے کا اعتقاد درست نہیں ہے۔ دوسرے موقع پر ایک مجذوم آپﷺ سے بیعت ہونے کے لیے آیا تو نبی کریمﷺ نے ہاتھ ملائے بغیر ہی اسے بیعت کرلیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کے درجہ میں بیماری کے ظاہری اسباب سے بچناجائز ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ظاہری سبب کے طور پر پھیلنے والی بیماری کی جگہ یا شخص سے بچنا جائز ہے، تاہم یہ عقیدہ نہ ہو کہ ایسی جگہ میں جانے سے یا رہنے سے یا ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں دریافت کیے جانے والے حدیث شریف کے ٹکڑے’’فر من المجذوم فرارك من الأسد‘‘سے آنحضرتﷺکا مقصود احتیاط کے جواز کو بیان کرنا ہے،جس کی تفصیل ذکر کردی گئی ہے۔

فتح الباری میں ہے :

’’والصحيح الذي عليه الأكثر ويتعين المصير إليه أن لا نسخ بل يجب الجمع بين الحديثين وحمل الأمر باجتنابه والفرار منه على الاستحباب والاحتياط والأكل معه على بيان الجواز اه هكذا اقتصر القاضي ومن تبعه على حكاية هذين القولين‘‘۔

(10/159،ط:دارالمعرفہ بیروت)

شرح النووی علی الصحیح لمسلم میں ہے :

’’والصحيح الذي قاله الأكثرون ، ويتعين المصير إليه أنه لا نسخ ، بل يجب الجمع بين الحديثين ، وحمل الأمر باجتنابه والفرار منه على الاستحباب والاحتياط لا للوجوب ، وأما الأكل معه ففعله لبيان الجواز . والله أعلم .‘‘

(7/393،ط:دار احیاء التراث العربی )

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

" فر من المجذوم فرارك من الأسد " فإنه محمول على بيان الجواز أو لئلايقع شيء منه بخلق الله فينسب إلى الإعداء بالطبع ليقع في محذور اعتقاد التأثير لغير الله، وقد عمل النبي صلى الله عليه وسلم بالأمرين ليشير إلى الجوابين عن قضية الحديث فإنه جاءه مجذوم فأكل معه قائلاً: بسم الله ثقةً بالله وتوكلاً عليه، وجاءه مجذوم آخر ليبايعه فلم يمد إليه يده وقال: قدبايعت، فأولاً نظر إلى المسبب وثانيًا نظر إلى السبب في مقام الفرق وبين أن كلاً من المقامين حق، نعم الأفضل لمن غلب عليه التوكل أو وصل إلى مقام الجمع هو الأول والثاني لغيره".

(4 / 1711،ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں