میری شادی کو گیارہ سال ہوگئے ،ہمارے اولاد نہیں ہورہی تھی،ہم نے بہت علاج کروائے ،لیکن بیوی کے مسائل اس نوعیت کے تھے کہ ڈاکٹروں نے یہ کہا کہ ان کی بچہ دانی نکلوانی پڑےگی،پھر بچہ دانی نکلوائی گئی ،اب وہ ماں نہیں بن سکتی۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بیوی جھوٹ بولتی ہے امانت دار نہیں ہے ،غلط بیانی کرتی ہےمخلص نہیں ہے اور ہمارے مزاج بھی نہیں بنتے تو اس صورت ِحال میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں تو کیا میں اس طلاق دینے سے گناہگار تو نہیں ہوں گا ؟ کیوں کہ میں دو بیویوں کے نان نفقہ اور ان میں برابری کی حالت میں نہیں ہوں۔
واضح رہے کہ عام حالات میں بیوی کو طلاق دینا شرعا ناپسندیدہ ہے ،حدیث مبارکہ میں اس کو " ابغض الحلال" قراردیا گیا ہے ،البتہ معقول سبب کی وجہ سے طلاق دینے کی گنجائش ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان اپنی بیوی سے نباہ کی کوشش کرے ،جو معاملات خراب ہیں وہ خاندان کے بڑوں کو بٹھا کر حل کرلیں،پھر اگر کوشش کے باوجود بھی دونوں میاں بیوی کا مزاج نہیں بنتا اور ساتھ رہنے میں ایک دوسرے کے حقوق ادانہ ہونے کا اندیشہ ہے تو سائل کے لئے اپنی بیوی کو حالت طہر میں ایک طلاق دینے کی گنجائش ہوگی، یا اگر وہ راضی ہو نان و نفقہ وغیرہ کی کمی کے باوجود دوسری شادی پر تو اسے بھی رکھیں اور اس کی ایذاء پر صبر کریں ،بہت اجر ملےگا۔
قرآن مجید میں ہے:
"وَعَسَىٰٓ أَن تَكۡرَهُواْ شَيۡـٔٗا وَهُوَ خَيۡرٞ لَّكُمۡۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّواْ شَيۡـٔٗا وَهُوَ شَرّٞ لَّكُمۡۚ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ وَأَنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ." [البقرة: 216]
ترجمہ:اور یہ بات ممکن ہے کہ تم کسی امر کو گراں سمجھو اور وہ تمھارے حق میں خیر ہو اور یہ (بھی) ممکن ہے کہ تم کسی امر کو مرغوب سمجھو اور وہ تمھارے حق میں (باعث) خرابی ہو ۔ اور الله تعالیٰ جانتے ہیں اور تم (پورا پورا) نہیں جانتے ۔ (بیان القرآن)
فتاوی شامی میں ہے :
"وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق."
(کتاب الطلاق،3/ 228،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101475
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن