بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے جسم سے سونا ہٹانے کے لیے قبر کھولنے کا حکم


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا جب کہ اس نے سونے کے گھٹنے لگائے ہوئے تھے، دس، پندرہ سال بعد کسی نے وہ قبر کھول کر وہ سونا اٹھا لیا، اب پوچھنا یہ ہے کہ جنہوں نے وہ سونا نکالا ہےان کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور وہ سونا ورثاء اس سے لے سکتے ہیں؟ اگر لے سکتے ہیں تو اس سونے کا کیا حکم ہے؟ یہ میراث شمار ہو گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ میت کو قبر میں دفنانے کے بعد کسی شرعی ضرورت کے بغیر قبر کو کھولنا جائز نہیں ہے ، اور شرعی ضرورت سے مراد یہ کہ ایسی ضرورت ہو کہ جس سے بندوں کا حق متعلق ہو، مثلاً قبر میں میت کے ساتھ واقعی کسی کا مال یا سامان بھی دفن ہوگیا ہو تو قبر کو کھود کر مال اور سامان نکالنا جائز ہے، لیکن اگر قبر میں مال کا ہونا یقینی نہ ہو یا مال تو ہو لیکن صاحبِ حق کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ نہ ہو تو ایسی صورت میں  قبر کھودنا جائز نہیں ہے، یہ میت اور قبر دونوں کی بے حرمتی ہے۔
نیز: اگر وہ مال میت کے جسم کا جز ہو ، میت کے جسم کو کاٹے بغیر نہ نکالا جا سکتا ہو تو پھر میت کے جسم کو کاٹ کر اسے الگ کرنےکا حق میت کے ورثاء کو بھی حاصل نہیں۔
 لہذا صورتِ مسئولہ   میں  سونے کے گھٹنے لگانے کے بعد  چونکہ وہ جسم کا حصہ بن چکے تھے،اور ورثاء نے جس طرح مرنے کے بعد میت کی بے حرمتی سے بچتے ہوئے نہیں نکالا، اور میت کے احترام میں چھوڑ دیا ، اسی طرح قبر کھود کر بھی نکالنا کسی کے لیے جائز نہیں تھا، جنہوں نے قبر کشائی کی وہ شرعی حکم کی خلاف ورزی ( اور میت اور قبر کی بے حرمتی ) کرنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوئے ، جس پر ان کو سچے دل سے توبہ و استغفار لازم ہے، تاہم نکالنے کے باوجود وہ اس کے مالک نہیں بنیں گے، بلکہ مرحوم کے ورثاء اگر معلوم ہوں تو ان کو لوٹانا لازم ہے،وہ سونا مرحوم کا ترکہ شمار ہو کر ورثاء ہی کا حق ہو گا،اور  ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا۔

فتاویٰ  ہندیہ میں ہے :

"سئل القاضی الامام شمس الائمة محمود الاوزجندی عن المقبرۃ فی القری اذا اندرست و لم یبق فیھا اثر الموتی لا العظم و لا غیرہ هل یجوز زرعھا قابل واستغلالھا قال: لا،  ولھا کم المقبرۃ کذا فی المحیظ فلو کان فیھا حشیش یحش و یرسل الدوابُّ فیھا کذا فی البحر الرائق..."الميت ‌بعد ‌ما دفن بمدة طويلة أو قليلة لا يسع إخراجه من غير عذر ويجوز إخراجه بالعذر، والعذر أن يظهر أن الأرض مغصوبة أو أخذها الشفيع بالشفعة، كذا في الواقعات الحسامية."

(کتاب الوقف، الباب الثانی عشر فی الرباطات و المقابر..،  ج:2، ص: 469،  ط:دارالفکر بیروت)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"(قال): وإن سقط شيء من متاع القوم في القبر فلا بأس بأن يحفروا التراب في ذلك الموضع ليخرجوا متاعهم من غير أن ينبش الميت لأن لمال المسلم حرمة وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن إضاعة المال، وفي إبقاء المتاع في القبر إضاعة المال وقد صح في الحديث أن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه سقط خاتمه في قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فما زال بالصحابة حتى رفع اللبن وأخذ خاتمه وقبل بين عيني رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم كان يفتخر بذلك ويقول: أنا آخركم عهدا برسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الصلوة، باب غسل الميت، ج:2، ص:74، ط:دار المعرفة - بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو بلع مال غيره ومات هل يشق؟ قولان، والأولى نعم، فتح. 

(قوله: ولو بلع مال غيره) أي ولا مال له كما في الفتح وشرح المنية، ومفهومه أنه لو ترك ما لايضمن ما بلعه لايشق اتفاقًا (قوله: والأولى نعم) لأنه وإن كان حرمة الآدمي أعلى من صيانة المال لكنه أزال احترامه بتعديه كما في الفتح، ومفاده أنه لو سقط في جوفه بلا تعد لايشق اتفاقًا."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، 2/ 238، ط: سعيد)

الفقہ علی المذاہب الاربعۃ میں ہے:

"يحرم ‌نبش ‌القبر ما دام يظن بقاء شيء من عظام الميت فيه، ويستثنى من ذلك أمور: منها أن يكون الميت قد كفن بمغصوب، وأبى صاحبه أن يأخذ القيمة، ومنها أن يكون قد دفن في أرض مغصوبة، ولم يرض مالكها ببقائه، ومنها أن يدفن معه مال بقصد أو بغير قصد، سواء كان هذا المال له أو لغيره، وسواء كان كثيراً أو قليلاً، ولو درهماً، سواء تغير الميت أو لا، وهذا متفق عليه."

(كتاب الصلوة،مباحث صلوة الجنازة،نبش القبر،488/1،ط:دار الکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

" لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام "من ترك مالا أو حقا فهو لورثته ."

(کتاب الحدود، ج: 7 ص:57 ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں