بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کمیٹی کاحکم


سوال

 ہمارے ہاں، ہانگ کانگ میں عرصہ دراز سے میت کی تجہیز وتدفین کیلئے کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد اہل میت کے ساتھ مالی تعاون، ہمدردی کا اظہار اور بر وقت تکفین وتدفین کے تمام کاموں کو سر انجام دینا۔ مختلف کمیٹیوں کے مختلف شرائط ہیں، چند شرائط مشترکہ طور پر ان تمام کمیٹیوں میں پائے جاتے ہیں۔ ١۔ کمیٹی کا ممبر بننے کے لئے ڈپوزٹ/فیس ادا کرنا ۔ مثلا بڑوں کیلئے ایک ہزار ڈالر اور بچوں کیلئے پانچ سو ڈالر ، اور اکثر non-refundable کمیٹیوں میں یہ جمع کردہ فیس ہوتی ہیں ٢۔کمیٹی کے ممبران میں سے اگر کسی کا انتقال ہو جائے، تو تمام ممبران کو ایک مخصوص مقدار میں رقم جمع کرنا لازمی ہوتا ہے، اگر یہ رقم (چند مہینوں کی مہلت کے بعد بھی) جمع نہ کرائی جائے تو ممبر شپ ختم کر دی جاتی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ شرائط کے ساتھ، کیا ان کمیٹیوں میں شرکت درست ہے، اگر نہیں تو اسکا شرعی متبادل کیا ہو گا۔ نوٹ :ایک میت کی تجہیز،تکفین وتدفین کا خرچہ تقریبا (70)ستر ہزار ہانگ کانگ ڈالر ہیں، ایک عام آدمی کے لئے اتنا بھاری رقم ادا کرنا اگرچہ نا ممکن نہیں مگر دشوار ضرور ہے۔ بینوا وتوجروا

جواب

صورت مسئولہ میں سائل  نے جو  مذکورہ شرائط  ذکر  کی ہیں  درست نہیں ہیں اور نہ ہی ان شرائط کے ساتھ اس کمیٹی میں شرکت کرسکتے ہیں لہذا  رفاہی انجمن یا ایسی  کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہو گا ۔

مذکورہ مسئلے سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

میت کمیٹی کی شرعی حیثیت

الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے :

" ( یبدأ من ترکة المیت  بتجهیزه)  یعم التکفین (من غیر تقتیر ولا تبذیر ) ککفن السنة أو قدر ما کان یلبسه في حیاته."

(  کتاب الفرائض،ج: ۷،ص:۷۵۹ ، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"( وکفن من لا مال له علٰی من تجب علیه نفقته) فإن تعددوا فعلی قدر میراثهم. و في الرد: (قوله: فعلی قدر میراثهم ) کما کانت النفقة واجبة علیهم فتح، أی فإنها علی قدر المیراث فلو له أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول السدس والباقي علی الشقیق. أقول: ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقة أنه لو کان له ابن وبنت کان علیهما سویة کالنفقة إذ لایعتبر المیراث في النفقة الواجبة علی الفرع لأصله ولذا لو کان له ابن مسلم وابن کافر فهي علیهما ومقتضاه أیضاً أنه لو کان للمیت أب وابن کفنه الابن دون الأب کما في النفقة علی التفاصیل الآتیة في بابها إن شاء اللّٰه تعالی."

( کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج: ۲،ص: ۲۰۵،۲۰۶، ط:سعید)

ایضا:

"( وإن لم یکن ثمة من تجب علیه نفقته ففي بیت المال فإن لم یکن ) بیت المال معموراً أو منتظماً (فعلي المسلمین تکفینه ) فإن لم یقدروا سألوا الناس له ثوباً فإن فضل شیء رد للمصدق إن علم وإلا کفن به مثله وإلا تصدق به، مجتبی. وظاهره أنه لایجب علیهم إلا سؤال کفن الضرورة لا الکفایة ولو کان في مکان لیس فیه إلا واحد وذلک الواحد لیس له إلا ثوب لایلزمه تکفینه به. و في الرد: (قوله:فإن لم یکن بیت المال معموراً ) أی بأن لم یکن فیه شيء أو منتظماً أي مستقیمًا بأن کان عامراً ولایصرف مصارفه ط، (قوله: فعلي المسلمین ) أي العالمین به وهو فرض کفایة یأثم بترکه جمیع من علم به، ط ، (قوله: فإن لم یقدروا ) أي من علم منهم بأن کانوا فقراء، (قوله: وإلا کفن به مثله ) هذا لم یذکره في المجتبي، بل زاده علیه في البحر عن التنجیس و الواقعات، قلت: وفي مختارات النوازل لصاحب الهدایة: فقیر مات فجمع من الناس الدراهم وکفنون وفضل شیء إن عرف صاحبه یرد علیه وإلا یصرف إلى کفن فقیر آخر أو یتصدق به."

( کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج: ۲،ص:۲۰۵،۲۰۶ ، ط:سعید )

ایضا:

" ولا بأس باتخاذ طعام لهم. و في الرد: (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم."

( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:۲ ،ص:۲۴۰ ، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں