بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میو برادری میں رائج نیوتہ کی رسم کا حکم


سوال

محترم مفتیانِ  کرام استفتا  کی نوعیت  چوں کہ اجتماعی ہے؛ اس لیے  سوال سے پہلے اس کا پس منظر   بیان کرنا ضروری ہے: 

ہماری برادری میو برادری (میواتی ) کا تعلق انڈیا کے موجودہ علاقہ میوات سے ہے اور  یہ پاکستان میں میو قوم ساری کی ساری انڈیا سے 1947 میں ہجرت کرکے آئی ہے، تو پاکستان آنے کے بعد اپنی وہ تمام کی تمام خوشی و غمی رسومات پر رہی جو انڈیا میں ان کے آباؤ اجداد کی تھی ۔اس رسومات میں سے ایک رسم شادی کے موقع پر نیوتہ کی ہے جس کو پنجابی زبان میں نیوندرہ کہتے   ہیں ۔ ہماری میو برادری قینچی امرسدھو نزد عمر مسجد (لاہور،پنجاب، پاکستان ) کی نیوتہ  کی ترتیب پہلے کچھ یوں تھی کہ جس کے گھر میں   شادی ہوتی تھی وہ پوری برادری کے  لیے کھانا بناتا تھا اور تقسیم کا طریقہ کا یہ تھا کہ جتنے گھر برادری میں ہیں ان کا فی کس فرد چاہے وہ ایک چھوٹا بچہ ہو یا بڑا آدھا کلو پکے ہوئے چاول اس کو دیے جاتے تھے،  اور ساتھ ہی نیوتہ  ادا کیا جاتا تھا۔ اور نیوتہ کی ترتیب یہ ہوا کرتی  تھی کہ شادی والے گھر کا حساب دیکھا جاتا تھا کہ اس نے پہلے کس کو کتنے پیسے نیوتہ  میں دیے  ہوئے ہیں ،اگر بالفرض اس نے 1000 روپے نیوتہ میں  دیے ہوئے  ہیں تو اب جو کھانا  لے کر جاراہا ہے وہ دگنا ادا  کرے گا یعنی 000 2 روپے۔پھر جب ان دو ہزار کی واپسی ہوگی تو 4000  روپوں کے ساتھ ہوگی ،اور اسی طرح نسل در نسل یہ معاملہ چل رہا ہے۔

پھر اس کے بعد ترتیب کچھ بدل گئی اور فی کس آدھا کلو والی ترتیب تو ختم ہوگئی، لیکن فی گھر ایک آدمی کی ترتیب شروع ہوگئی کہ ہر گھر میں ایک فرد آئے گا اور نیوتہ  ادا  کرے گا اور اور اس کے بعد کھانا شادی والے گھر سے کھائے گا ۔ اور برادری میں بہت سارے ایسے گھر ہیں جو غریب ہیں اور اگر ایک ماہ میں برادری میں  دو تین شادیاں آجائیں تو پورے ماہ کا حساب خراب ہوجاتا ہے اور  وہ ناچاہتے ہوئے ان کو نیوتہ  ادا کرنا پڑتا ہے۔ اور اسی طرح نیوتہ کے معاملے میں کئی دفعہ برادری کے مابین  شدید جھگڑا بھی ہوچکا ہے ۔

سوال 1: کیا مندرجہ بالا صورتِ مسئولہ میں نیوتہ کی رسم جائز ہے   یا ناجائز؟ اور اگر ناجائز ہے تو دلائل کے ساتھ آگاہ کریں ۔

سوال نمبر 2 : برادری کے کچھ لوگوں کے اس کے جواز پر یہ  کہنا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مدد کے مترادف ہے ،اگر نیوتہ  جائز نہیں ہے تو اس مدد کرنے والی بات کیا شریعت کی روشنی میں  صحیح  ہے؟

سوال 3: برادری کے کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے یہ   قرض حسنہ ہے ، مفتیان کرام شریعت کی نظر میں کیا فرماتے ہیں کہ اس طرح کے نیوتہ کی شکل کو قرض حسنہ کا نام دیا جاسکتا ہے؟  اور کیا اس طرح کا قرض   حسنہ جائز ہے؟  کیونکہ کے نیوتہ ادا نہ نہ کرنے   کی شکل میں سخت باز پرس بھی ہوتی ہے اور طعنہ تشنع بھی ہوتی ہے۔

سوال4:  برادری کے کچھ  حضرات نیوتہ کےاو پر نیوتہ کو کمیٹی ( بی سی)  سے تشبیہ دیتے  ہیں کہ اگر کسی شخص نے بالفرض دو لاکھ کی کمیٹی دس ہزار ماہانہ پر ڈالی ہے اور اس کو پہلی کمیٹی مل جاتی ہے جس کی رقم دو لاکھ بنتی ہے، جب کہ اس کی طرف سے صرف دس ہزار موصول ہوا ہے،تو جس طرح کمیٹی جائز ہے تو نیوتہ بھی جائز ہوا ۔تو کیا کمیٹی کی طرح نیوتہ بھی جائز ہوا ؟

سوال نمبر5: اور اسی طرح برادری کے کچھ لوگو ں کا یہ کہنا ہے کہ اس نیوتہ سے برادری میں جوڑ کی شکل ہے  اس  لیے اس کو برقرار رکھا جائے، حالانکہ حالات اس کے یکسر مختلف نظر آتے ہیں ۔تو اگر یہ نیوتہ ناجائز ہے تو کیا شرعی  طور پر اس طرح کے جوڑ کی گنجائش موجود ہے؟

سوال نمبر 6: اگر نیوتہ ناجائز ہے تو اس کو اب ختم کرنے کی کیا ترتیب ہونی چاہیے ؟

براہ کرم محترم مفتیان کرام سے گزراش ہے کہ ہر سوال کا الگ الگ مدلل اور مفصل جواب عنایت فرما کر شکریہ  کا موقع دیں ۔ برادری میں تقریبا 92 گھر ہیں یعنی سیکٹروں افراد اور آپکا جواب برادری کے جرگہ میں رکھا جائے گا ۔ لہذا مدلل اور مفصل جواب قرآن و حدیث اور فقہ حنفیہ کی روشنی تحریر فرمادیں ۔

جواب

1۔ شادی بیاہ کے موقع پر دولہا دولہن کو تحفہ تحائف بدلے  کی نیت   کے بغیر دینا جائز ہے،  البتہ بدلہ  کی نیت سے دینا  ( یعنی کہ اس مقصد سے دینا کہ دینے والے کو بدلہ میں زیادہ ملے گا ) جسے اردو میں  "نیوتہ" اور پنجابی میں "نیوندرہ"  کہا جاتا ہے،  قبیح رسم ہے ،  اس مقصد سے دینا  شرعًا ممنوع ہے۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّه...الآية﴾  [الروم: ٣٩]

مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے   معارف القرآن میں ہے مذکورہ آیت کی تفسیر کی ذیل میں لکھا ہے  :

” اس آیت  سے ایک بری رسم  کی اصلاح کی گئی جو عام خاندانوں  اور اہل قرابت  میں چلتی  ہے، وہ یہ ہے کہ  عام  طور پر کنبے رشتے  کے لوگ  جو کچھ  دوسرے کو    دیتے ہیں  ،اس پر نظر ہوتی ہے   کہ وہ  بھی ہمارے وقت  پر کچھ ادا کرے گا ۔ خصوصاً  نکاح، شادی  وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ  دیاجاتا ہے ، اس کی یہی حیثیت  ہوتی ہے ، جس کو عرف عام میں نیوتہ کہتے ہیں ۔ا س آیت  میں ہدایت کی گئی ہے کہ اہل قرابت  کا  جو حق پہلی آیت  میں ادا کرنے کا  حکم دیاگیا ہے ،ا ن کو یہ حق  اس  طرح  دیاجائے  کہ نہ ان پر  احسان جتائے اور نہ کسی  بدلہ پر نظر رکھے  اور جس نے بدل کی نیت سے دیا  اس کا مال دوسرے عزیز  رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے   کے بعد كچھ زیادتی لے کر آئےگا تو اللہ کے نذدیک اس کا   کوئی درجہ  اور ثواب  نہیں،قرآن  کریم نے اس زیادتی کو ربا سے تعبیر کرکے اس کی قباحت  کی   طرف اشارہ   کردیا ہے کہ یہ صورت سود کی سی ہوگئی  ۔

مسئلہ: ہدیہ اور ہبہ دینے والے کو اس پر نظر رکھنا کہ اس کا بدلہ ملے گا یہ تو ایک بہت مذموم حرکت ہے، جس کو اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے، لیکن بطور خود جس شخص کوئی ہبہ عطیہ کسی دوست عزیز کی طرف سے ملے اس کے لئے اخلاقی تعلیم یہ ہے کہ وہ بھی جب اس کو موقع ملے اس کی مکافات کرے، رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہی تھی کہ جو شخص آپ کو کوئی ہدیہ پیش کرتا تو اپنے موقع پر آپ بھی اس کو ہدیہ دیتے تھے( کذا روی عن عائشۃ قرطبی) ہاں اس مکافات کی صورت ایسی نہ بنائے کہ دوسرا آدمی یہ محسوس کرے کہ یہ میرے ہدیہ کا بدلہ دے رہاہے۔"

(سورۃ الروم ، ٦ / ٧٥٠، ط:ادارۃ المعارف)

لہذا شادی اور ولیمہ کی دعوت میں آنے والے لوگ اگر صاحبِ دعوت یعنی دولہا یا دولہن کو اس لیے رقم یا لفافہ دیتے ہوں  کہ بعد میں صاحبِ دعوت رقم یا لفافہ دینے  والوں کے خوشی کے موقع پر  اس سے زیادہ رقم واپس کرے گاتو یہ سودی قرض ہے اور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے، اور اگر دینے والے اس نیت سے دیتے ہوں کہ صاحبِ دعوت ان کی دعوت میں اتنی ہی رقم واپس کرے گا تو یہ  قرض ہے، اور اسی قدر واپسی لازم ہے، البتہ اگر واپس لینے کی نیت نہ  ہو، خالص ہدیہ یا تعاون ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں ، بلکہ شریعت میں مطلوب ہے، پس  شادی، ولیمہ میں رقم وغیرہ دیتے ہوئے خالص ہدیہ  کی ہی نیت کرنی چاہیے۔

2۔  مسئولہ صورت  میں نیوتہ کی مذکورہ رسم واجب الترک ہے،  البتہ اگر شادی کے موقع پر معاونت ہی مطلوب ہو تو خالص ہدیہ کی نیت سے  معاونت کی جاسکتی ہے۔

3۔ برادری میں مروجہ رسم خالص سودی قرض کی ہے، اسے قرض حسنہ قرار دینا درست نہیں۔

4۔ مروجہ نیوتہ کی رسم کو بی سی کمیٹی پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے؛ کیوں کہ مروجہ بی سی کمیٹی میں ہر ممبر جتنی رقم جمع کراتا ہے، اتنی ہی رقم وصول کرتا ہے، خواہ  بی سی ابتداء میں وصول کرکے بقیہ رقم بعد میں جمع کراتا رہے، یا تمام بی سیاں جمع کراکر آخر میں تمام رقم وصول کرے، پس اگر کسی بی سی کمیٹی کا ضابطہ یہ ہو کہ ابتدائی تین افراد بقیہ بی سیاں دینے سے بری ہوں گے، تو  ایسی کمیٹی کا حصہ بننا بھی شرعا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

پس مروجہ نیوتہ کی رسم میں سودی قرض کا پہلو ہی غالب ہونے کے ساتھ ساتھ  نیوتہ دینے والوں کی قلبی رضامندی بھی شامل نہیں ہوتی، بلکہ وہ باز پرس، اور طعن و تشنیع کے خوف سے دیتے ہیں، طیب نفس کے بغیر کسی سے مال لینا شرعا ممنوع ہے۔

5۔ مروجہ نیوتہ کی رسم برادری میں جوڑ کا ہر گز سبب نہیں، بلکہ برادری والوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے،  جو اپنی عزت بچانے کی خاطر اس رسم کو پورا کرتے ہیں۔

6۔  مذکورہ رسم برادری کی سطح پر علی الاعلان ختم کردی جائے، البتہ  طیب نفس کے ساتھ اگر کوئی تحفہ دے تو وہ وصول کیا جا سکتا ہے، اور نہ دینے والوں کی باز پرس، اور ملامت نہ کی جائے، پس اگر برادری میں ملامت، طعن و تشنیع کی صورت برقرار رہے، تو  یہ نیوتہ ہی شمار ہوگی، جسے بالکلیہ ترک کرنا شرعا ضروری ہوگا۔

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل، يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته، وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ. قلت: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمةً يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه."

(کتاب الهبة،٥ / ٦٩٦، ط: دار الفكر) 

درر الحکام في شرح مجلة الأحکاممیں ہے:

" (المادة ٨٧٦) : الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف ... (الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفاً وعادةً على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات، وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل، بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة، ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك، والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً ".

(الکتاب السابع الهبة، المادة:۸۷۶ ۲ / ٤٨١ - ٤٨٢، ط: دار الجیل)

شرح المجلة لخالد الأتاسي میں ہے:

" الهدایا التي ترد في عرس الختان و الزفاف ... و هذا کله علی فرض أن المرسل هدیة، أما لو ادعی المرسل أنه قرض، ففي الفتاویٰ الخیریة ما نصه: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض؛ فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثلياً فبمثله، وإن قيمياً فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً اهـ .قال في رد المحتار: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضاً حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى، فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه اهـ

قلت: والعرف الغالب في حمص أنهم ینظرون في ذلك إلی إعطاء البدل، وعلیه فما یهدي في ذلك من أرز أو سکر أو سمن أو شاة حیة یکون قرضاً صحیحاً أو فاسداً، فیطالب به من عمل الولیمة من أب أو غیره، و مثل هذا ما یهدیه أقارب العروس من النساء و البنات بعد أسبوع من زفافها و یسمونه نقوطاً في بلادنا، فلا شك أنه قرض تستوفیه کل واحدة منهن إذا تزوجت أو زوجت بنتها في یوم أسبوعها".

(الکتاب السابع الهبة، المادة:۸۷٦، ٣ / ٤٠١ - ٤٠٢، ط: مکتبة إسلامیة کوئٹه) 

شرح مشكل الآثار للطحاوي میں ہے:

"٢٨٢٣  - وكما حدثنا الربيع بن سليمان بن داود قال: حدثنا أصبغ بن الفرج قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا عبد الملك بن الحسن، عن عبد الرحمن بن أبي سعيد، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه " قال: قلت يا رسول الله , إن لقيت غنم ابن عمي آخذ منها شيئا؟ فقال: " إن لقيتها تحمل شفرة , وأزنادا بخبت الجميش فلا تهجها " -

قال أبو جعفر: ففيما روينا إثبات تحريم مال المسلم على المسلم."

( باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك،٧ / ٢٥٢، ط: مؤسسة الرسالة )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں