بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کمیٹی میں شامل ہونے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں ایک کمیٹی چل رہی ہے۔جو 2010 سے شروع ہے۔اس کمیٹی میں ایک فیملی ایک مہینہ کا 100 سو روپے دیتی ہے۔وہ کمیٹی یہ کام کرتی ہے اگر کمیٹی ڈالنے والے کے گھر میں کوئی فوتگی ہو جائے تو اس میں گھر آنے والوں کا کھانے پینے کا بندوبست کرتی ہے۔ اب میں اس کمیٹی میں اپنا نام ڈالنا چاہتا ہوں ۔لیکن وہ کمیٹی والے بولتے آپ نے 2010 سے لے اب تک جتنے  پیسے بنتے ہیں وہ سب دینے پڑیں گے۔ کمیٹی والے اس طرح پیسے مانگ رہے ہیں، اس طرح پیسے دینا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے اخراجات کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ذاتی مال موجود ہوتو اس کے کفن دفن کا خرچہ اسی میں سے کیا جائے، اگر اس کے پاس مال موجود نہیں تو اس کے یہ اخراجات اس شخص کے ذمے  ہوں گے جس پر اس کی زندگی میں اس کا خرچہ واجب تھا،دوم یہ کہ جس طرح کسی کی موت  کی صورت  میں  میت کے کفن دفن کے اخراجات کا انتظام ایک اہم خرچہ ہے،  اسی  طرح زندگی کی ابتدا  سے بہت سے ایسے مراحل آتے ہیں جس میں کافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،  جن میں شادی بیاہ وغیرہ سر فہرست ہے، حال آں کہ ایسے مراحل میں ہمیں کبھی  کمیٹی بنانے  کی ضرورت نہیں پڑتی اور بغیر کمیٹی بنائے ان مراحل کے تمام اخراجات کا انتظام  بھی ہوجاتا ہے؛ اس لیے  میت کی تجہیز وتکفین  کے اخراجات کیلئے  میت کمیٹی بنانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ۔

میت کے رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ  کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں،تين دن تين  راتوں تك بھی   کھانے کا انتظام کرنا جائز  اور  درست ہے،اہلِ میت کو کھانا کھلانا اس وجہ سے ہے کہ میت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کا انتظام نہیں کرپاتے ،غزوہ موتہ میں جب نبی کریمﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ شہید ہوئے اور ان کی وفات کی خبر آپﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں  کے لیے کھانے کا بندوبست کرو؛ کیوں کہ  ان پر ایسا شدید صدمہ آن پڑا ہے جس نے انہیں غم میں مشغول کردیا ہے۔

دور دراز کے علاقوں سے جو لوگ میت کے ہاں تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت  کے لیے آئے ہوں اگر وہ بھی کھانے میں شریک ہوجائیں تو ان کاشریک ہونا بھی درست ہے، قرب و جوار سے آئے لوگوں  کے لیے باقاعدہ کھانے کا انتظام کرنا اور ان  کے لیے یہ کھانا کھانا شرعاً درست نہیں۔

اس کے برعکس انجمن اور کمیٹیاں قائم کرنا جس میں ماہانہ یا سالانہ فیس لے کر تجہیز اور تکفین کے اخراجات اٹھائے جاتے ہیں ،نیز میت کے اہل خانہ کے ہاں تعزیت  کے لیے آئے ہوئے مہمانوں  کے لیے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے جوکہ عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، اس کے علاوہ کئی  دیگر قباحتوں پر بھی مشتمل ہے،جن میں سے چند  یہ ہیں:

(1)کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہرفرد چاہے امیر ہو یا غریب،ایک مخصوص رقم ہر ماہ کمیٹی میں جمع کرائے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتاہے،پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمیٹی کی بنیادصدقہ اور"امداد باہمی"پر نہیں،بلکہ اس کا مقصد ہر ممبر کو اس کی جمع کرائی گئی رقم کے بدلے سہولیات فراہم کرنا ہے ،یہ سہولیات اس کی جمع کرائی گئی رقم سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہے،جوکہ سود کے مشابہ اور قابل ترک ہے۔

(2)بسا اوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کے بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے؛ کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود انہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت جیسے غمگین موقع پر اسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(3)اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے،حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ نظام صرف میت کے گھر والوں اور دور دراز کے علاقے سے آنے والے رشتہ دار جن کا کوئی متبادل ٹھکانہ نہیں ان   کے لیے ہو۔

(4) جب اس طرح کے فنڈز جمع ہوتے ہیں تو میت کو جلد از جلد  قبر میں دفن کرنے کے بجائے اپنے گاوں میں بھیجنے کا انتظام کیا جاتا ہے، اس طرح تدفین میں تاخیر کا سبب بنتا ہے جوکہ غلط ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں میت کمیٹی میں شامل ہونا ہی جائز نہیں ہے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا أحمد بن منيع، وعلي بن حجر، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن جعفر بن خالد، عن أبيه، عن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر، قال النبي صلى الله عليه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاما، فإنه قد جاءهم ما يشغلهم. هذا حديث حسن، وقد كان بعض أهل العلم يستحب أن يوجه إلى أهل الميت شيء لشغلهم بالمصيبة، وهو قول الشافعي. وجعفر بن خالد هو ابن سارة وهو ثقة روى عنه ابن جريج."

(ابواب الجنائز،باب ما جاء فی الطعام یصنع لأہل المیت،ج۱/۱۹۵،مکتبہ:قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:«ألا لاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البیوع،باب الغصب و العاریۃ،الفصل الثانی،ص۲۵۵،مکتبہ:قدیمی کتب خانہ(

در مختار  میں ہے:

"(يبدأ من تركة الميت.......(بتجهيزہ) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته."

( فتاوی شامی ،کتاب الفرائض ج:۷۵۹،۷۶۰:سعید)

و فیہ أیضاً:

"(وكفن من لا مال له على من تجب نفقته) فإن تعددوا فعلى قدر ميراثهم.و فی رد المحتار: (قوله فعلى قدر ميراثهم) كما كانت النفقة واجبة عليهم فتح أي فإنها على قدر الميراث، فلو له أخ لأم وأخ شقيق فعلى الأول السدس والباقي على الشقيق. أقول: ومقتضى اعتبار الكفن بالنفقة أنه لو كان له ابن وبنت كان عليهما سوية كالنفقة؛ إذ لايعتبر الميراث في النفقة الواجبة على الفرع لأصله؛ ولذا لو كان له ابن مسلم، وابن كافر فهي عليهما، ومقتضاہأيضا أنه لو كان للميت أب وابن كفنه الابن دون الأب كما في النفقة على التفاصيل الآتية في بابها إن شاء الله تعالى."

)فتاوی شامی ،ج:۲،ص: ۲۰۵،کتاب الصلاۃ،:سعید)

و فیہ أیضاً:

"مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت وقال أيضا: ويكرہاتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ.

( فتاوی شامیکتاب الصلاۃ،باب الجنائز،ج۲/۲۴۰،۲۳۹،مکتبہ:ایچ ایم سعید)

و فیہ  أیضاً:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر و الاباحۃ،فصل فی البیع،ج۶/۴۰۳،مکتبہ:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں