میاں بیوی میں پانچ سال سے ناراضی ہے، دونوں اس عرصے کے دوران ایک دوسرے سے نہیں ملے، لڑکا بیرون ملک میں مقیم ہے، اب اس نے وہاں سے فون پر طلاق دی ہے، کیا لڑکی کی عدت اسی طرح ہوگی جیسے طلاق یا خاوند کے فوت ہونے پر ہوتی ہے؟
طلاق کی عدت کا تعلق زوالِ نکاح سے ہے، شوہر کے قریب ہونے یا نہ ہونے سے نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کو تین ماہواریاں بطور عدت گزارنا لازم ہوگا، بشرطیکہ اسے ماہوری آتی ہو، بصورت دیگر تین ماہ بطور عدت گزارے گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"هي انتظار مدة معلومة يلزم المرأة بعد زوال النكاح حقيقة أو شبهة المتأكد بالدخول أو الموت كذا في شرح النقاية للبرجندي. رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان.
... إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج.
والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ١ / ٥٢٦، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200825
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن