بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوجائے تو کیا کیا جائے؟


سوال

میں کاروبارکے لیے بیرون گیا تھا،مالی حالات خراب ہوگےتھے،جس کی وجہ سے میں اپنی اہلیہ کو اس کا نفقہ نہیں بھیج سکا،بیرون ملک نیپال میں میرا ویزہ ختم ہوگیا تھا،جس کی وجہ سے مجھےکچھ عرصہ جیل میں بھی رہنا پڑا،شروع میں جب میں نیپال گیا تھاتو میں اپنی اہلیہ سے رابطہ بھی کرتا تھا،ایک سال تک رابطہ ہوتا رہاپھر انہوں نے کال اٹھانا بند کردیا،اب میں پاکستان آیا ہوں،میں اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ مل کر اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں،مگر میری بیوی کے گھر والے مجھ سے بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، میری سالی میرے بچوں کی کفالت کررہی ہے،وہ مجھے نہ بیوی سے بات کرنے دیتی ہے اور نہ ساس سے،میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیوی اوربچوں کے ساتھ رہوں اور ان کے تمام اخراجات اٹھاؤں۔

میں نے بیوی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی،اس کے نمبر پر بہت ساری کالیں اوربہت سارے میسج کیے،لیکن اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

دریافت یہ کرنا ہےکہ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے تواس کو ختم کرنے کا شرعاً کیا طریقہ ہے؟اورمیری سالی کامجھے اپنی بیوی اور بچوں سے ملنے میں رکاوٹ ڈالنا شرعاً درست ہے؟اور جو ہمارا گھر بسانے میں رکاوٹ ہیں ان کا عمل شرعاً کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کبھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوجائے تو دونوں کو چاہیے کہ باہمی رضامندی اور صلح صفائی کے ساتھ آپس کے اختلافات کو ختم کرکے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گذاریں،اگر دونوں کے درمیان بات نہ بنے تو دونوں کے خاندان کے بڑوں کو چاہیے کہ دونوں کے درمیان صلح صفائی کرائیں،اس کے باوجوداگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک بلا کسی وجہ کے دوسرے کےساتھ رہنے پر تیار نہ ہو،تو اس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا۔

مذکورہ تفصیل کی رو سےصورتِ مسئولہ میں  جب سائل اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ مل کر اپنا گھر بسانا چاہتا ہےاور ان کے تمام اخراجات پورے کرنے کےلیے تیار ہے،تو اس کی بیوی پر لازم ہے کہ اپنے شوہر یعنی سائل کے ساتھ صلح صفائی کر کےبچوں سمیت اچھے طریقے سے زندگی گذارے،ورنہ وہ سخت گناہ گار ہوگی،کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں بلا کسی وجہ کے شوہر سے علیحدہ رہنےوالی عورت کے متعلق سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

نیز سائل کی سالی کا  سائل اور اس کی بیوی بچوں کے درمیان رکاوٹ بننا شرعاً درست نہیں ہے،سائل کی سالی اور جو لوگ سائل اور اس کی بیوی کا گھر بسانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں وہ اپنی اس حرکت کی وجہ سے سخت گناہ گار ہورہے ہیں۔

باقی زیرِ نظر مسئلہ اگر کسی بھی طورپر حل نہ ہورہا ہوتوسائل کسی متعلقہ عدالت سے بھی رجوع کرسکتا ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا محمد بن عرعرة، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن زرارة، عن أبي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا باتت المرأة ‌مهاجرة ‌فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع»

(کتاب النکاح، باب اذا باتت المراۃ مھاجرۃ فراش زوجھا، ج:2، ص:782، ط:قدیمی)

"ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب عورت(بغیر کسی وجہ کے) اپنے شوہر کے بستر سے علیحدہ ہو کر رات گذارتی ہے تو جب تک وہ عورت (شوہر کی طرف)واپس نہ آجائے   فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں"

فقط واللہ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144304100925

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں