بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوجائے تو کیا کیا جائے؟


سوال

میری اہلیہ ناراض ہو کر میکے چلی گئی ہیں، بچے بھی انہی کے ساتھ ہیں، گھر آنے کو تیار نہیں ، پہلے بچے میرے ساتھ بھیج دیا کرتے تھے اب ایک نئی شرط لگائی ہے کہ بچے ہفتہ میں ایک بار صرف عصر تا عشاء لے جانے کی اجازت ہو گی کیا ازروئے شریعت میری اہلیہ اور ان کے گھر والوں کا یہ عمل ٹھیک ہے؟

جواب

واضح رہےکہ ازدواجی تعلق میں ایک ساتھ رہتےہوئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کے ذمہ دوسرے کے حقوق ہیں،جن کو اداکرنا دونوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے،اور اس تعلق میں ایک دوسرے کےلیےقربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں،اگر کسی وقت  ایک پرکوئی مشکل وقت آئے تو دوسرےکو اس کا سہارا بنتےہوئےاس کامکمل ساتھ دینا چاہیے،چھوٹی چھوٹی باتوں کو اختلاف کا سبب نہیں بنانا چاہیے،شریعتِ مطہرہ میں عورت کو جائز کام میں استطاعت کے مطابق شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، اگر شوہر بیوی کو کسی جائز بات کاحکم دے تو بیوی پر استطاعت کےمطابق اس کی بات کا ماننا لازم ہے، حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اورکو سجدہ کرناجائز ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، ہاں خلافِ شرع امور میں شوہر کی اطاعت جائزنہیں ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں میاں بیوی  پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے جو شکو ہ شکایات ہیں ،اسے دور کرنے کی کوشش کریں خاندان کے بڑے بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں اسی طرح بچوں کے  معاملے میں باہمی رضامندی سے ایسی ترتیب بنائیں جس میں فریقین کو حرج نہ ہو،  بچوں سے صرف ہفتہ میں ایک دن عصر تا عشاء کے وقت ملاقات کا پابندکرنا درست نہیں،   زوجین کو چاہیے کہ آپس میں مصالحت کرلیں اور الفت و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی یقینی بنائیں ، تاکہ اللہ تعالی کی  ناراضگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بچوں کو والد کی پوری محبت و تعلق بھی نصیب ہو۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ."(سورۃ النساء :34)

ترجمہ:مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔"(بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح          میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي."

( باب عشرۃ النساء،٢٨١/٢، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔(مظاہر الحق )

وفیہ ایضا: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت."

(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،٩٧١/٢ط:المکتب الاسلامی)

"ترجمه:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے (یعنی اپنے ایام طہارت میں )اور رمضان المبارک میں روزے رکھے اور خاوند کی فرمانبرداری کرے (یعنی جن باتوں میں اسے فرمانبرداری کرنے کا حکم ہے)تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو ۔(مظاہر حق)"

وفیہ ایضاً:

"وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة."

(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،٩٧٢/٢،ط:المکتب الاسلامی)

"ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا  جو عورت اس حال میں فوت ہو  کہ اس کا خاوند اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں جائے گی ۔"(مظاہر حق)"

وفیہ ایضاً:

"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور."

(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،٩٧٢/٢،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنی حاجت کے لیے (یعنی جماع کے لیے )اپنی بیوی کو بلائے تو اسے حاضر ہو جانا چاہیے اگر چہ وہ تنور پر ہو ۔(مظاہر حق) "

فتاوی شامی میں ہے:

" و حقّه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.(قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به." 

          (باب القسم،٢٠٨/٣، ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504101327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں