میری شادی 12 اپریل 2007ء کو ہوئی تھی، میرے دو بچے ہیں، میرا شوہر مجھے اور بچوں کو خرچ نہیں دیتا ہے،بچوں کی کفالت میں خود کرتی ہوں، شوہر خواہش غیر شرعی طریقہ(پیچھے کی طرف) سے پورا کرنا چاہتا ہے، منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتا ہے، اب میں تقریباً دو سال کے عرصے سے میکے میں مقیم ہوں، شوہر نے مجھے فون کے ذریعے مختلف اوقات میں طلاق دی ہے، پہلی مرتبہ فون پر کہا کہ: ” میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، آپ میرے اوپر حرام ہو، میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ میرے سے آزاد ہو۔“ اگلے دن فون پر پھر کہا: ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، تم مجھ سے آزاد ہو، تم میرے اوپر حرام ہو۔“ لیکن اب شوہر طلاق سے انکار کر رہا ہے، اور انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ میرے نکاح نامہ میں درج یہ شرط تھی کہ طلاق کی صورت میں شوہر بیوی کو پانچ لاکھ روپے دے گا۔ نیز شوہر نے مجھے عدالت سے خلع لینے کی بھی اجازت دی ہے، کہ تم خلع لے لو۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ مذکورہ جملوں سے مجھے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟
غیر فطری عمل (پیچھے کی راہ میں خواہش پوری کرنا) مطقاً، بہر حال حرام اور سخت ترین گناہ ہے، مذکورہ طریقہ پر ضرورت پوری کرنے والا حدیث شریف میں ملعون قرار دیا گیا ہے، لہٰذا شوہر اپنے اس فعل بد پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرے، تاہم اس عمل سے میاں بیوی کا نکاح ختم نہیں ہوا۔
باقی صورتِ مسئولہ میں چوں كہ سائلہ اور اس کے شوہر کے درمیان طلاق دینے اور نہ دینے کے بارے میں اختلاف ہے، سائلہ کا دعوی یہ ہے کہ شوہر نے انہیں فون پر درج ذیل الفاظ:
” میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، آپ میرے اوپر حرام ہو، میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ میرے سے آزاد ہو۔“ اگلے دن فون پر پھر کہا: ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، تم مجھ سے آزاد ہو، تم میرے اوپر حرام ہو۔“
سے طلاق دی ہے، جب کہ شوہر انکار کر رہا ہے، لہٰذا اس بارے فریقین (میاں بیوی) کو چاہیے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کسی مستند مفتی یا عالم دین کو حکم (فیصل) بنائیں اور وہ شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیں، دونوں فریق اس پر عمل کریں۔
البتہ اگر واقعتاً شوہر نے بیوی کو عدالت سے خلع لینے کی اجازت دی ہے، تو بیوی کسی بھی وقت عدالت سے خلع لے کر نکاح ختم کر سکتی ہے۔
نیز عقدِ نکاح کے وقت طلاق دینے کی صورت میں شوہر پر پانچ لاکھ روپے بیوی کو دینے کی شرط (مالی جرمانہ) لگانا فاسد تھا، لہٰذا طلاق دینے کی صورت میں شوہر سے رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي هريرة، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: "ملعون من أتى امرأته في دبرها."
”وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کے دبر (پیچھے کی راہ) میں وطی کرے۔“
(کتاب النکاح، باب فی جامع النکاح، جلد:2، صفحہ: 249، المکتبہ العصریہ)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و يصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما و هو حقوق العباد و لا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، و هو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة ولا يجوز في حد الزنا والسرقة والقذف."
(كتاب أدب القاضی، الباب الرابع و العشرون فی التحکیم، ج: 3، ص: 397، ط: دار الفكر)
وفيه أيضا:
"و حكم هذا الحكم يفارق حكم القاضي المولى من حيث إن حكم هذا الحكم إنما ينفذ في حق الخصمين و من رضي بحكمه، و لا يتعدى إلى من لم يرض بحكمه بخلاف القاضي المولى، كذا في الملتقط."
(كتاب أدب القاضی ، الباب الرابع و العشرون فی التحکیم، ج: 3، ص: 397، ط: دار الفكر)
ملتقی الابحر میں ہے:
"الخلع هو الفصل عن النكاح و قيل أن تفتدي المرأة نفسها بمال ليخلعها به ولا بأس به عند الحاجة، وكره له أخذ الشيئ إن نشز."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،صفحة:263،دار البيروتي)
رد المحتار میں ہے :
"(لا بأخذ مال في المذهب)
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه."
(كتاب الحدود، باب التعزير، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)
و فیه أیضاً :
"إنما (يبطل الشرط دونه) يعني لو عقد مع شرط فاسد لم يبطل النكاح بل الشرط."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 53، ط: سعید)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أحق الشروط) مبتدأ (أن توفوا به) بالتخفيف ويجوز التشديد بدل من الشروط والخبر (ما استحللتم به الفروج) قال القاضي: المراد بالشروط هاهنا المهر لأنه المشروط في مقابلة البضع، وقيل: جميع ما تستحقه المرأة بمقتضى الزوجية من المهر والنفقة وحسن المعاشرة فإن الزوج التزمها بالعقد فكأنها شرطت فيه، وقيل: كل ما شرط الزوج ترغيبا للمرأة في النكاح ما لم يكن محظورا، قال النووي - رحمه الله -: قال الشافعي: أكثر العلماء على أن هذا محمول على شرط لا ينافي مقتضى النكاح، ويكون من مقاصده كاشتراط العشرة بالمعروف الإنفاق عليها وكسوتها وسكناها، ومن جانب المرأة أن لا تخرج من بيته إلا بإذنه ولا تصوم تطوعا بغير إذنه ولا تأذن غيره في بيته إلا بإذنه ولا تتصرف في متاعه إلا برضاه ونحو ذلك، وأما شرط يخالف مقتضاه كشرط أن لا يقسم لها ولا يتسرى عليها ولا ينفق ولا يسافر بها ونحو ذلك فلا يجب الوفاء به بل يكون لغوا، ويصح النكاح بمهر المثل، وقال أحمد: يجب الوفاء بكل شرط، قال الطيبي - رحمه الله -: فعلى هذا الخطاب في قوله ما استحللتم للتغليب فيدخل فيه الرجال والنساء ويدل عليه الرواية الأخرى ما استحلت به الفروج. (متفق عليه)."
(باب إعلان النكاح والخطبة والشرط، ج: 5، ص: 2066، ط: دار الفکر بیروت لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100358
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن