بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا برہنہ سونا


سوال

اللہ رب العزت نے خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے،  اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ جو اپنی شرم گاہ چھپالے  علاوہ اپنی بیوی اور لونڈی کے تو ان پر ملامت نہیں، اسی طرح بخاری کی صحیح حدیث ہے جس میں حضرت عائشہ ر ضی اللہ عنہا نے ایک ہی برتن سے اکٹھے غسل کا ذکر کیا ہے، اسی طرح سنن ابی داود4017 اور ترمذی 2769 میں حدیث ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ سے ستر چھپانے کا حکم دیا ہے،  جبکہ کچھ احادیث ہیں  جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ جب بیوی کے پاس جاؤ تو بالکل گدھے کی طرح برہنہ ہوکر نہ جاؤ ،  یہ حدیث ضعیف ہے، اسی طرح اور بھی احادیث ہیں  لیکن وہ ضعیف ہیں،  کسی صحیح حدیث میں اس طرح کی ممانعت نہیں آئی ہے، بہت سارے علماء بھی خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے کے ستر کو دیکھنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاوند اور بیوی کے درمیان کوئی ستر نہیں،  میری معلومات کے مطابق بہتر اور ادب یہی ہے کہ دوران جماع اور سونے کے دوران شرم گاہ کو ڈھانپ لے، لیکن اگر کوئی شرم گاہ کو نہیں ڈھانپتا تو بھی جائز ہے،  اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ اگر خاوند اور بیوی دونوں جماع سے پہلے مکمل طور پر برہنہ ہوکر بوس و کنار یا جماع کریں یا جماع کے بعد مکمل طور پر برہنہ ہوکر اکھٹے سوئیں تو کیا یہ عمل جائز ہے یا نا جائز؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں میا ں بیوی کا جماع سے پہلے برہنہ ہوکر بوس کنار ہونا اور جماع  کرنا اور جماع کے بعد برہنہ ہوکر سونا جائز ہے ، ليكن ادب کے خلاف ہے، اور بالکل برہنہ ہوکر سونا شریعت میں پسندیدہ نہیں ؛ اس لیے بیوی کے ساتھ مجامعت  کرنے کے بعد   بقدرِ ضرورت لباس اوڑھ کر سونا چاہیے ۔

نیز   سوال میں جس حدیث کے ضعف کا بیان ہے اس حدیث کو محدثین نے مختلف طرق سے نقل فرمایا ہے (جس کی تفصیل نصب الرایہ للزیلعی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے:کتاب الکراہیہ،‌‌فصل في الوطء، والنظر، والمس ،246/4،ط:دار الریان )جن  میں سے بعض طرق  میں ضعیف روات  بھی موجود ہیں ، اور اسی وجہ سے بعض علماء نے اس حدیث کو ضعیف بھی قراردیا ہے،لیکن  درحقیقت اس حدیث کے دیگر اور بھی متابع اور شواہد موجود ہیں ،جس کی وجہ سے مذکورہ حدیث مجموعی اعتبار سے درجۂ حسن تک جاپہنچتی ہے، اس لیے اس حدیث کو مطلقاً ضعیف  کہنا اور ناقابل عمل قرار دینا درست نہیں ہے ۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إياكم ‌والتعري فإن معكم من لا يفارقكم إلا عند الغائط وحين يفضي الرجل إلى أهله فاستحيوهم وأكرموهم» . رواه الترمذي".

ترجمہ:’’حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم برہنہ ہونے سے اجتناب کرو( اگرچہ تنہائی کیوں نہ ہو)؛ کیوں کہ پاخانہ اور اپنی بیوی سے مجامعت کے اوقات کے علاوہ تمہارے ساتھ ہر وقت وہ( فرشتے) ہوتے ہیں( جو تمہارے اعمال لکھنے پر مامور ہیں)  لہذا تم ان (فرشتوں )سے حیا کرو اور ان کی تعظیم کرو  ۔‘‘

(مظاہر حق ج:3ص:259 ط:دار الاشاعت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إياكم ‌والتعري فإن معكم من لا يفارقكم إلا عند الغائط وحين يفضي الرجل إلى أهله فاستحيوهم وأكرموهم» . رواه الترمذي".

(كتاب النكاح ، ‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات ، الفصل الثاني  ج: 2 ص: 934 ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ويجرد زوجته للجماع إذا كان البيت صغيرا مقدار خمسة أذرع أو عشرة قال مجد الأئمة الترجماني وركن الصباغي والحافظ السائلي لا بأس بأن يتجردا في البيت، كذا في القنية."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له وما يحل له مسه وما لا يحل له ج:5 ص: 328  ط: دارالفكر)

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"حدثنا إسحاق بن وهب الواسطي قال: حدثنا الوليد بن القاسم الهمداني قال: حدثنا الأحوص بن حكيم، عن أبيه، وراشد بن سعد، وعبد الأعلى بن عدي، عن عتبة بن عبد السلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا أتى أحدكم أهله فليستتر، ولا يتجرد تجرد العيرين".

(کتاب النکاح ، باب التستر عند الجماع ج:1 ص:618 ط:دار إحياء الكتب العربية)

شرح سنن ابن ماجہ للہرری میں ہے:

"وهذ السند من خماسياته، وحكمه: الحسن؛ لأن الأحوص بن حكيم مختلف فيه... وهذا الحديث انفرد به ابن ماجه، ولكن له شاهد من حديث ابن مسعود، رواه البزار في "مسنده"، والبيهقي في "سننه الكبرى"، قال المزي في "الأطراف": رواه بشر بن عمارة عن الأحوص بن حكيم عن عبد الله بن عامر عن عتبة بن عبد السلمي، وأخرجه البيهقي في كتاب النكاح، باب الاستتارة في حالة الوطء، وعبد الرزاق، باب القول عند الجماع، وكيف يصنع، وفضل الجماع.فدرجة هذا الحديث: أنه حسن، لكون سنده حسنا، وله شواهد، وغرضه بسوقه: الاستشهاد به".

(كتاب النكاح، باب التستر عند الجماع ج: 11 ص:234 / 235 ط: دار المنهاج)

تدریب الراوی میں ہے:

"الثالث: ‌إذا ‌روي ‌الحديث من وجوه ضعيفة لا يلزم أن يحصل من مجموعها حسن، بل ما كان ضعفه لضعف حفظ راويه الصدوق الأمين زال بمجيئه من وجه آخر وصار حسنا، وكذا إذا كان ضعفها لإرسال زال بمجيئه من وجه آخر، وأما الضعف لفسق الراوي فلا يؤثر فيه موافقة غيره."

(النوع الثاني:الحسن،حكم حديث روي من وجوه ضعيفة،ج: 1،ص: 192،ط: دار طیبة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں