1)عورت پردہ کرتی ہے لیکن ٹوپی والا برقعہ استعمال نہیں کرنا چاہتی، بلکہ چادر یا کالے برقعہ سے پردہ کرنے کا کہتی ہے، اس کا شوہر اسے ٹوپی والا برقعہ پہننے کا کہتا ہے کیوں کہ وہ کہتا ہے کہ اس برقعے میں پردہ احسن طریقے سے ہوتا ہے۔ اس معاملے میں بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت لازم ہے یا نہیں؟
2)شوہر نے اپنی بیوی سے متعدد بار دوسری شادی کرنے کا تذکرہ کیا ہے، بیوی کہتی ہے کہ یہ بات درست ہے کہ شریعت نے مرد کے لیے چار شادیوں کی اجازت دی ہے لیکن عورت کے سامنے بار بار مرد اس کا تذکرہ کرے اور اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرے اور نفسیاتی طور پر اس کو تکلیف پہنچائے یہ شریعت کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے، جب کہ مرد یہ کہتا ہے کہ میں نے مزاحاً بیوی سے اس کا تذکرہ کیا ہے اور بیوی کے یہ بتانے پر کہ اس کی وجہ سے اسے تکلیف ہوتی ہے اس سے معذرت بھی کی ہے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا بھی کہا ہے۔
کیا ایسی صورت میں مرد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے؟
3)مرد کے گھر میں مرد کی اہلیہ اور بھابھی کے لیے ایک مشترکہ موبائل ہے جس سے وہ اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے رابطہ کرسکتی ہیں لیکن بیوی کہتی ہے کہ مجھے اپنا ذاتی موبائل استعمال کرنا ہے جس کے لیے اس کے والدین کہتے ہیں کہ موبائل اپنی بیٹی کو ہم لے کر دیں گے؛ تاکہ ہماری بیٹی جس وقت چاہے بلا کسی جھجھک اور بغیر کسی احتیاج کے ہم سے رابطہ کرسکے، لیکن مرد اس سے منع کرتا ہے۔
کیا شوہر پر بیوی کا یہ مطالبہ ماننا شرعاً لازم ہے؟
4)مرد کا گھر اور بیوی کے والدین کا گھر ایک ہی شہر میں ہے۔کتنے عرصے بعد شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کی اس کے والدین سے ملاقات کروائے؟ ملاقات کے لیے لے کر جانا یا بھیجنے کا انتظام کرنا شوہر پر لازم ہے؟ ملاقات کےلیے جانے میں جو سفر کے اخراجات آئیں گے کیاوہ شوہر پر لازم ہوں گے؟ عورت اور اس کے والدین کے گھر کے درمیان مسافت جب شرعی مقدارِ سفر سے کم ہو یعنی تقریباً 30 کلو میٹر ہو تو اس صورت میں عورت اکیلی اپنے والدین کی ملاقات کے جاسکتی ہے؟ نیز عورت اپنے محرم اعزہ و اقارب سے ملنے کے لیے کتنےعرصے بعد جاسکتی ہے؟
5)شوہر کے گھر میں پرسکون زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں لیکن عورت کا مطالبہ یہ ہے کہ یا تو مرد اس کے والدین کے گھر کے موافق اس کے لیے نان نفقہ اور رہائش کا انتظام کرے یا پھر اس کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق جیب خرچ متعین کرے۔
کیا عورت کا یہ مطالبہ درست ہے؟ مرد پر عورت کے نان نفقہ اور رہائش کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
6)عورت کہتی ہے کہ بیوی کا یہ حق ہے کہ اسے چار ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے گھر سے باہر جائز تفریحی ماحول فراہم کیا جائے جب کہ مرد کا کہنا یہ ہے کہ عورت اپنی ساس کے ساتھ شادی بیاہ اور دعوت وغیرہ کی تقریبات میں جاتی رہتی ہے ، بس یہی اس کے لیے تفریح ہے۔
شریعت کی رو سے عورت کا مذکورہ مطالبہ پورا کرنا کیا مرد پر لازم ہے؟
1)واضح رہے کہ شریعت نے پردے کے لیے عورت کو کسی خاص چادر یا برقع کا مکلف نہیں کیا بلکہ چند بنیادی شرائط بیان کردی ہیں، ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے عورت کوئی بھی چادر یا برقع پردے کے لیے استعمال کرے گی اس سے پردے کا حکمِ شرعی پورا ہوجائے گا اور وہ شرائط درج ذیل ہیں۔
1)چادر یا برقع اتنا بڑا ہو کہ خاتون کا پورا جسم اس میں چھپ جائے، گھر سے نکلتے وقت خاتون پر اپنا چہرہ، ہاتھ اور پاؤں چھپانا بھی شرعاً ضروری ہے۔
2)برقع اتنا موٹا اور ڈھیلا ہو کہ اس سے جسم کے اعضائے مستورہ یا ان کی ساخت واضح نہ ہوتی ہو۔
3)برقع سادہ ہو، ایسا عمدہ اور خوب صورت نہ ہو کہ اس کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھتی ہوں۔
4)برقع کا تعلق لباس سے ہے اور لباس میں شرعی حدود کے لحاظ کے ساتھ علاقائی عرف اور صلحاء کے تعامل کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے، جس عرف میں جو صلحاء اور صالحات کا لباس ہو اس کا پہننا شرعاً مستحسن ہے۔
لہذا مذکورہ صورت میں اگر میاں بیوی کے علاقے کا عرف یہ ہے کہ وہاں خواتین عام طور پر ٹوپی والا برقع استعمال کرتی ہیں تو شوہر بیوی کو اس پر مجبور کرسکتا ہے اور اگر وہاں کا عرف یہ نہیں ہے، بلکہ عام برقع پہننے کا معمول ہے تو بیوی کو ٹوپی والے برقعے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے بلکہ عورت کے لیے ایسے عام برقع کا استعمال کرنا جائز ہے جس میں شریعت کی مذکورہ بالا تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔
قرآن مجید میں ہے:
{يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ قُل لِّأَزۡوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ يُدۡنِينَ عَلَيۡهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَن يُعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورٗا رَّحِيمٗا ٥٩}
ترجمہ:اے پیغمبر! اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادوں سے اور دوسرے مسلمانوں کے بیبیوں سے بھی کہہ دیجئے کہ (سر سے ) نیچے کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں، اس سے جلدی پہچان ہوجایا کریگی تو ازاری نہ دی جایا کریں گی اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔
(ماخوز از بیان القرآن، مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، جلد3، ص:191، ط:مکتبہ رحمانیہ)
عمدۃ القاری میں ہے:
"(جلباب) ، وهو خمار واسع كالملحفة تغطي به المرأة رأسها وصدرها. وتجلببت المرأة وجلببها غيرها، ولم يدغم لأنه ملحق. وفي (المحكم) : الجلباب القميص، وقيل: هو ثوب واسع دون الملحفة."
(عمدۃ القاری، جلد3، کتاب الحیض، باب شہود الحائض الی العیدین، ص:303، ط: دار احیاء التراث)
فتح الباری لابن رجب میں ہے:
"(الجلباب): هي الملاءة المغطية للبدن كله، تلبس فوق الثياب، وتسميها العامة: الإزار، ومنه قول الله - عز وجل -: {يدنين عليهن من جلابيبهن}."
(فتح الباری لابن رجب، جلد2، کتاب الحیض، باب شہود الحائض العیدین، ص: 141، ط: مکتبۃ الغرباء)
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا."
(صحیح مسلم، جلد3، کتاب اللباس و الزینۃ، باب النساء الکاسیات العاریات المائلات الممیلات، ص:1680، ط:دار احیاء الکتب العربیہ)
سنن ترمذی میں ہے:
"عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «كل عين زانية، والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي كذا وكذا» يعني زانية."
(سنن ترمذی، جلد5، ابواب الادب، باب ماجاء فی کراہیۃ خروج المراۃ متعطرۃ، ص:106، ط: شرکت مکتبہ، مصر)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي:هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق."
(مرقاة المفاتيح، جلد7، كتاب اللباس، ص:2782، ط: دار الفكر)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"جو لباس کفار یا فساق یا مردوں کے ساتھ مخصوص ہے، عورتوں کو اس کا استعمال ناجائز ہے، جو مشترک ہے اس کا استعمال جائز ہے، تاہم صلحاء کا لباس جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہو اس کا استعمال مستحسن ہے۔"
(فتاوی محمودیہ، جلد19، کتاب الحظر و الاباحۃ، باب اللباس، ص:309)
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت وحرقت ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة وإياك والمعصية فإن بالمعصية حل سخط الله عز وجل وإياك والفرار من الزحف وإن هلك الناس وإذا أصاب الناس موتان وأنت فيهم فاثبت وأنفق على عيالك من طولك ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله. رواه أحمد."
(مشکوۃ المصابیح، جلد1، کتاب الایمان، باب الکبائر و علامات النفاق، ص:25، ط:المکتب الاسلامی، بیروت)
2)واضح رہے کہ مرد کو شریعت نے بیک وقت چار شادیاں کرنے کا اختیار دیا ہے، لہذا اگر مرد دوسری شادی کرنا چاہے تو بیوی اسے منع نہیں کرسکتی، لیکن شوہر کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ (اگر چہ مزاحاً ہی کیوں نہ ہو) اپنی بیوی کو اذیت دینے کے لیےبار بار اس کے سامنے دوسری شادی کا تذکرہ کرے، باقی اگر شوہر نے اس پر بیوی سے معذرت کرلی ہے جیساکہ شوہر نے لکھا ہے تو پھر بیوی کو بھی عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"قال النووي: اعلم أن المزاح المنهي عنه هو الذي فيه إفراط ويداوم عليه، فإنه يورث الضحك وقسوة القلب، ويشغل عن ذكر الله والفكر في مهمات الدين، ويؤول في كثير من الأوقات إلى الإيذاء، ويورث الأحقاد، ويسقط المهابة والوقار."
(مرقاۃ المفاتیح، جلد7، کتاب الآداب، باب المزاح، ص:3061، ط: دار الفکر)
3)مرد اگر کسی معقول وجہ سے(مثلاً اس اندیشہ سے کہ عورت گھر کی باتیں اپنے میکے میں بتائے گی، جس سے گھر کا ماحول خراب ہوسکتا ہے) اپنی بیوی کو ذاتی موبائل رکھنے سے منع کرتا ہے تو اسے شرعاً یہ حق حاصل ہے، لیکن اگر کوئی ایسی معقول وجہ نہیں ہے اور بیوی اپنے والدین سے رابطے کے لیے اپنا ذاتی سادہ موبائل رکھنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں شوہر اسے منع نہیں کرسکتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ظاهر الكنز وغيره اختيار القول بالمنع من الدخول مطلقا واختاره القدوري وجزم به في الذخيرة، وقال: ولا يمنعهم من النظر إليها والكلام معها خارج المنزل إلا أن يخاف عليها الفساد فله منعهم من ذلك أيضا."
(رد المحتار بھامش الدر المختار، جلد3، کتاب الطلاق، باب النفقہ، ص:603، ط: ایچ ایم سعید)
4)اگر میاں بیوی اسی شہر میں رہتے ہوں جس میں بیوی کے والدین رہائش پذیر ہیں تو بیوی ہفتے میں ایک بار اپنے والدین کی ملاقات کے لیے جانے کا حق رکھتی ہے اور اگر دوسرے شہر میں ہوں تو عرفاً مہینے میں ایک بار جاسکتی ہے، بیوی اپنے محرم رشتہ داروں سے ملنے کے لیے سال میں ایک مرتبہ جاسکتی ہے، شوہر اس سے منع نہیں کرسکتا۔لیکن بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دن کے اوقات میں جائے اور رات واپس آکر شوہر کے گھر میں گزارے، بیوی کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے گھر کے علاوہ کہیں اور رات گزارنے کا حق نہیں ہے۔
بیوی کو والدین یا اس کے محرم رشتہ داروں کی ملاقات کے لیے لے کر جانا یا اس کا انتظام کرنا شوہر پر لازم نہیں،نیز بیوی کے اس سفر کا خرچہ بھی شوہر پر لازم نہیں۔
سفرِ شرعی کی مقدار سے کم مسافت تک عورت کےلیے تنہا سفر کرنا اگرچہ ناجائز نہیں ہے لیکن چوں کہ آج کل فتنے بہت زیادہ ہیں اس لیے عورت کو سفرِ شرعی کی مقدار سے کم مسافت تک بھی تنہا سفر نہیں کرنا چاہیے۔
البحر الرائق میں ہے:
"الصحيح أنه لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة وفي غيرهما من المحارم في كل سنة وإنما يمنعهم من الكينونة عندها وعليه الفتوى كما في الخانية."
(البحر الرائق، جلد4، کتاب الطلاق، باب النفقہ، ص:212،ط: دار الکتاب الاسلامی)
فتاوی دار العلوم زکریا میں ہے:
"والدین کی زیارت کی تعیین کا مدار عرف پر ہے، تاہم ہمارے عرف و معاشرے کے مطابق اگر والدین قریب رہتے ہوں تو ہر ہفتہ ملاقات کرسکتی ہے اور اگر دور رہتے ہوں تو مہینے میں ایک مرتبہ، لیکن اگر بہت زیادہ دور ہوں تو سال میں دو تین دفعہ ملاقات کی اجازت ملنی چاہیے۔"
(فتاوی دار العلوم زکریا، جلد4، کتاب النکاح، باب حقوق الزوجین، ص: 419، ط: زمزم پبلشرز)
امداد الفتاوی میں ہے:
"جمعہ تحدیدِ شرعی نہیں، مدار عرف و ضرورت پر ہے۔"
(امداد الفتاوی، جلد2، کتاب النکاح، ص: 209، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما إذا حج الزوج معها فلها النفقة إجماعا، وتجب عليه نفقة الحضر دون السفر، ولا يجب الكراء."
(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات،الفصل الاول فی نفقۃ الزوجۃ، ص:546، ط: مکتبہ رشیدیہ)
در مختار میں ہے:
"(لا) نفقة لأحد عشر۔۔۔(وحاجة) ولو نفلا (لا معه ولو بمحرم) لفوات الاحتباس. (ولو معه فعليه نفقة الحضر خاصة) لا نفقة السفر والكراء."
رد المحتار میں ہے:
"(قوله ولو نفلا) المناسب ولو فرضا فيفهم عدم الوجوب في النفل بالأولى؛ لأنه متفق عليه. أما الفرض ففي البحر عن الذخيرة عن أبي يوسف أنه عذر فلها نفقة الحضر. وفي رواية عنه: يؤمر بالخروج معها والإنفاق عليها (قوله لا معه) عطف على مقدر: أي حاجة وحدها أو مع غير الزوج لا معه.
(قوله لفوات الاحتباس) علة لقوله لا نفقة لأحد عشر إلخ (قوله ولو معه) أي ولو حجت مع الزوج ولو كان الحج نفلا كما في الهندية ط. قلت: وكذا لو خرجت معه لعمرة أو تجارة لقيام الاحتباس لكونها معه (قوله لا نفقة السفر والكراء) فينظر إلى قيمة الطعام في الحضر لا في السفر."
(در مختار مع رد المحتار، جلد3، کتاب الطلاق، باب النفقہ، ص:579، ط: مکتبہ رشیدیہ)
رد المحتار میں ہے:
"(قوله في سفر) هو ثلاثة أيام ولياليها فيباح لها الخروج إلى ما دونه لحاجة بغير محرم بحر، وروي عن أبي حنيفة وأبي يوسف كراهة خروجها وحدها مسيرة يوم واحد، وينبغي أن يكون الفتوى عليه لفساد الزمان شرح اللباب ويؤيده حديث الصحيحين «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم عليها» وفي لفظ لمسلم «مسيرة ليلة» وفي لفظ «يوم» لكن قال في الفتح: ثم إذا كان المذهب الأول فليس للزوج منعها إذا كان بينها وبين مكة أقل من ثلاثة أيام."
(رد المحتار بھامش الدر المختار، جلد2، کتاب الحج، ص:465، ط: ایچ ایم سعید)
5)شوہر پر بیوی کا نان نفقہ واجب ہوتا ہے اور نان نفقہ میں بنیادی طور پر تین چیزیں داخل ہیں: 1)کھانا، پینا۔ 2)کپڑے۔ 3)رہائش۔شریعت نے بیوی کے نان نفقہ میں شوہر اور بیوی دونوں کی مالی حیثیت کا اعتبار کیا ہے، اگر شوہر خوش حال ہو اور بیوی بھی خوش حال گھرانے سے ہو تو امراء والا نان نفقہ لازم ہوگا، اور اگر شوہر غریب ہو اور بیوی بھی غریب گھرانے سے ہو تو غرباء والا نان نفقہ لازم ہوگا، اور اگر ایک امیر ہو اور دوسرا غریب ہو تو متوسط قسم کا نفقہ لازم ہوگا، البتہ اگر شوہر خوش حال ہو اور بیوی غریب گھرانے سے ہو تو اس صورت میں شوہر کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ جیسا کھانا، کپڑا اور رہائش اپنے لیے اختیار کرے، بیوی کو بھی وہی مہیا کرے، جب کہ بعض فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق ہر صورت میں شوہر کی مالی حیثیت کو مدِ نظر رکھ کر بیوی کے نان نفقہ کی نوعیت طے کی جائے گی۔
لہذا مذکورہ صورت میں اگر شوہر بیوی کا واجبی نفقہ ادا نہیں کررہا تو اس پر لازم ہے کہ وہ بیوی کو اس کا واجبی نفقہ ادا کرے اور اگر وہ واجبی نفقہ ادا کررہا ہے تو بیوی کو شوہر سے جیب خرچ کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے، البتہ اگر شوہر دے دے تو یہ حسنِ سلوک ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا أراد الفرض، والزوج موسر يأكل الخبز الحواري واللحم المشوي، والمرأة معسرة، أو على العكس اختلفوا فيه والصحيح: أنه يعتبر حالهما كذلك في الفتاوى الغياثية وعليه الفتوى حتى كان لها نفقة اليسار إن كانا موسرين، ونفقة العسار إن كانا معسرين، وإن كانت موسرة، وهو معسر لها فوق ما يفرض لو كانت معسرة، فيقال له: أطعمها خبز البر وباجة أو باجتين، وإن كان الزوج موسرا مفرط اليسار نحو أن يأكل الحلواء، واللحم المشوي والباجات وهي فقيرة كانت تأكل في بيتها خبز الشعير لا يجب عليه أن يطعمها ما يأكل بنفسه، ولا ما كانت تأكل في بيتها، ولكن يطعمها خبز البر وباجة، أو باجتين وفي ظاهر الرواية يعتبر حال الزوج في اليسار والإعسار كذا في الكافي وبه جمع كثير من المشايخ - رحمهم الله تعالى - وقال في التحفة: إنه الصحيح كذا في فتح القدير، وقال مشايخنا - رحمهم الله تعالى -: والمستحب للزوج إذا كان موسرا مفرط اليسار والمرأة فقيرة أن يأكل معها ما يأكل بنفسه قال في الكتاب: وكل جواب عرفته في فرض النفقة من اعتبار حال الزوج، أو اعتبار حالهما فهو الجواب في الكسوة كذا في الذخيرة."
(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الاول فی نفقۃ الزوجۃ، ص:548، ط: مکتبہ رشیدیہ)
6) بیوی کو کسی تفریحی مقام پر لے جانا شوہر پر شرعاً لازم نہیں ہے، لیکن چوں کہ تفریحِ طبع بھی ایک انسانی ضرورت ہے، لہذا شوہر کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر میں بیوی کی تفریح کا سامان مہیا کرے اور اگر بیوی کبھی کبھار شوہر سے کسی تفریحی مقام پر لے جانے کی خواہش ظاہر کرے تو شوہر کے لیے شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ اسے لے جانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها، قالت: خرجت سودة بعدما ضرب الحجاب لحاجتها، وكانت امرأة جسيمة لا تخفى على من يعرفها، فرآها عمر بن الخطاب فقال: يا سودة، أما والله ما تخفين علينا، فانظري كيف تخرجين، قالت: فانكفأت راجعة، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي، وإنه ليتعشى وفي يده عرق، فدخلت فقالت: يا رسول الله، إني خرجت لبعض حاجتي، فقال لي عمر كذا وكذا، قالت: فأوحى الله إليه ثم رفع عنه، وإن العرق في يده ما وضعه، فقال: إنه قد أذن لكن أن تخرجن لحاجتكن."
عمدۃ القاری میں ہے:
"لا خلاف أن غيرهن يجوز لهن أن يخرجن لما يحتجن إليه من أمورهن الجائزة بشرط أن يكن بذة الهيئة خشنة الملبس تفلة الريح مستورة الأعضاء غير متبرجات بزينة ولا رافعة صوتها."
(عمدۃ القاری، جلد19، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالی: لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم، ص: 125، ط: دار احیاء التراث العربی)
معارف القرآن (للشفیعؒ) میں ہے:
"قرن فی بیوتکن:میں عورتوں پر قرار فی البیوت واجب کیا گیا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ عورتوں کے لیے گھر سے باہر نکلنا مطلقاً ممنوع اور حرام ہو۔ مگر اول تو خود اسی آیت و لا تبرجن سے اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ مطلقاً خروج بضرورت ممنوع نہیں بلکہ وہ خروج ممنوع ہے جس میں زینت کا اظہار ہو۔"
(معارف القرآن، جلد7، ص: 133، ط: مکتبہ معارف القرآن)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100355
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن