بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا تین طلاق میں اختلاف کا شرعی حل


سوال

جناب اگر بیوی یہ کہے کہ میرے شوہر نے تین مختلف اوقات میں مجھے طلاق دی ہے اور گواہ کوئی نہ ہو اور شوہر قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھا رہا ہے کہ میں نے مختلف اوقات میں صرف دو مرتبہ طلاق دی ہے، تو کیا کریں؟ مہربانی فرما کر مسئلہ کا حل بتا دیں؟ شکریہ۔

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر بیوی تین طلاق کا دعویٰ کر رہی ہے اور شوہر اس کا منکر ہے، تو    ایسے اختلاف کی صورت میں دونوں (میاں، بیوی)  کسی مستند عالمِ دین یا مفتی کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ ثالث مقرر کریں، پھر بیوی  اس کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کرے  اور ثالث اس سے اس کے دعوی پر دو گواہ طلب کرے، اگر وہ گواہ پیش کردے گی تو  وہ  بیوی پر طلاق  واقع ہونے کا فیصلہ کر دے گا،  اور اگر  بیوی شرعی گواہ  پیش  نہ کرسکے تو بیو ی کے مطالبہ پر شوہر  پر قسم آئے گی،  اگر شوہر قسم اٹھالیتا ہے  تو  ثالث طلاق واقع  نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا،البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہوتو اسے چاہیے کہ شوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی جو کوئی صور ت بن سکے بنائے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی....ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔

( ج:8، ص:283، ط:دارالاشاعت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌وكذلك ‌إن ‌سمعت ‌أنه ‌طلقها ‌ثلاثا ‌وجحد ‌الزوج ‌ذلك ‌وحلف ‌فردها ‌عليه ‌القاضي ‌لم ‌يسعها ‌المقام ‌معه، ‌وينبغي ‌لها ‌أن ‌تفتدي ‌بمالها ‌أو ‌تھرب ‌منه".

(کتاب الکراهية، الباب الأول في العمل بخبر الواحد، الفصل الثانی فی العمل بخبر الواحد فی المعاملات، ج:5، ص:313، ط:رشيدية)

 مبسوط سرخسی میں ہے:

"ولا يسع المرأة إذا سمعت ذلك أن تقيم معه لأنها مأمورة باتباع الظاهر ‌كالقاضي".

(کتاب الطلاق، باب ماتقع به الفرقة مما يشبه الطلاق، ج:6، ص:93، ط:دار الکتب العلمية)

اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع".

(کتاب الدعویٰ، ج:15، ص:350، ط:إدارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد و لايصح فيما لايملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة".

(كتاب أدب القاضي، الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، ج:3، ص:397، ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلاينافي ما قبله".

 (کتاب الطلاق، باب الصريح، ج:3، ص:251، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102695

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں