بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا پلاسٹکی آلہ تناسل استعمال کرنا


سوال

آج کل بازار میں  پلاسٹكي آله تناسل موجود هے، جو بيوی پہن کر اپنے شوہر کے ساتھ ہم بستری کرتی ہے، کیا یہ گناہ ہے کہ بیوی پلاسٹکی عضو تناسل پہن کر اپنے شوہر کے ساتھ یہ کام کرے؟

جواب

پلاسٹکی آلہ تناسل استعمال کرکے مرد  کا اپنی بیوی سے ہم بستری کرنا بھی ناجائز ہے، چہ جائے کہ عورت  پلاسٹکی آلہ تناسل پہن کر مرد سے ہم بستری کرے، اس لیے کہ  مرد کے لیے بیوی یا باندی کے علاوہ کسی بھی چیز کے ذریعہ شہوت کو ابھارنا یا شہوت  پوری کرنا ، اسی طرح عورت کے لیے شوہر کے علاوہ دوسری کسی بھی چیز سے شہوت کو ابھارنا یا شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے۔

نیز مرد   ہم بستری کا محل  بھی نہیں ہے، لہذا بیوی کا مذکورہ عمل  شرعًا، اخلاقًا اور  عقلًا  ہر لحاظ سے انتہائی قبیح عمل ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ} [المؤمنون: ۵ تا ۸]

ترجمہ:   اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں، مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر، سو ان پر نہیں کچھ الزام۔ پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔

  (ترجمہ از شیخ الھند)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ، اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’ {فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ} ، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاءِ شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں، اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکمِ زنا ہے، اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی۔ اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے‘‘۔

(ازتفسیر بیان القرآن۔ قرطبی۔ بحر محیط وغیرہ) (معارف القرآن)

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (14 / 309):

"فإن قيل: كيف يجوز أن يقال: ما سبقكم بها من أحد من العالمين مع أن الشهوة داعية إلى ذلك العمل أبدًا؟

والجواب: أنا نرى كثيرا من الناس يستقذر ذلك العمل، فإذا جاز في الكثير منهم استقذاره لم يبعد أيضا انقضاء كثير من الأعصار بحيث لا يقدم أحد من أهل تلك الأعصار عليه وفيه وجه آخر وهو أن يقال: لعلهم بكليتهم أقبلوا على ذلك العمل والإقبال بالكلية على ذلك العمل مما لم يوجد في الأعصار السابقة. قال الحسن: كانوا ينكحون الرجال في أدبارهم وكانوا لا ينكحون إلا الغرباء وقال عطاء عن ابن عباس: استحكم ذلك فيهم حتى فعل بعضهم ببعض."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں