کوئی آدمی بینک چیک کو نقد پیسوں کے عوض کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرسکتا ہے،مثلاً ڈرائیور حضرات جو ایک شہر سے دوسرے شہر سواری یا سامان لے کر جاتے ہیں تو بسا اوقات انہیں نقد کیش کے بجائے چیک ملتا ہے، جس کے استعمال میں مدت ہوتی ہے، مثلاً پندرہ دن، جب کہ اسے جلدی واپس گھر جانا پڑتا ہے، تو وہ دوسرے بندے کو چیک دیتا ہے، مثلاً ایک لاکھ روپے کا اور وہ بدلے میں پچانوے ہزار روپے دیتا ہے اور پانچ ہزار خود رکھتا ہے۔ تو کیا شرعاً اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے زَر کو زَر کے عوض، کرنسی کو کرنسی کے عوض، سونا چاندی کو سونا چاندی کے عوض، یا سونا چاندی کو کرنسی کے عوض فروخت کرنا "بیع صرف" کہلاتا ہے، اگر بیع صرف میں دونوں عوض کی جنس ایک ہو جیسے سونے کے عوض میں سونا یا چاندی کے عوض چاندی، یا پاکستانی روپے کے بدلے میں پاکستانی روپے کی بیع کی تو اس کے جائز ہونے کی دو شرائط ہیں:
اگر دونوں عوض ایک ہی جنس کے ہوں تو اس صورت میں اگر ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو یہ عقد سود ہونے کی وجہ سے حرام ہوگا۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ معاملہ چوں کہ"بیع صرف" ہے، اس لئے کہ اس معاملہ میں بھی ایک جانب سے ایک لاکھ روپے کا چیک ہے اور دوسری جانب سے پچانوے ہزار روپے نقد ، اور ایک طرف رقم زیادہ ہے اور دوسری جانب کم، ایک جانب سے ادائیگی نقد ہے اور دوسری جانب سے ادھار اور دونوں جانب سے روپے کا تبادلہ ہوا، کیونکہ چیک میں بھی کاغذ مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس میں لکھی ہوئی رقم ہی مقصود ہوتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں شرعًا دونوں طرف سے دیا جانے والا عوض کا برابر اور نقد ہونا ضروری ہے، اگر عوض برابر اور نقد نہیں ہوگا تو یہ معاملہ قطعًا حرام اور سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے بالاتفاق ناجائز ہوگا۔باقی یہ حیلہ ہوسکتا ہے کہ اگر بینک کا چیک ایک لاکھ روپے کا ہے تو جو آدمی چیک لے رہا ہے وہ ایک لاکھ روپے دیدے، تاکہ معاملہ برابر ہوجائے پھر بینک کا چیک بینک جاکر کیش کرنے کے لیے متعین اجرت دیدیں تو یہ جائز ہے۔
الصحیح لمسلم میں ہے:
"عن عبادة بن الصامت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلًا بمثل، سواء بسواء، يدا بيد، فإذا اختلفت هذه الأصناف، فبيعوا كيف شئتم، إذا كان يدًا بيد."
(کتاب المساقاة والمزارعة، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا: 2/ 25، ط:قدیمی)
البحر الرائق میں ہے:
"(فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أی النقدان بأن بیع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوی وزناً ومن قبض البدلین قبل الافتراق."
(کتاب الصرف: 6/ 192، ط:سعید)
ہدایہ میں ہے:
"وإذا وجدا (الوصفان )حرم التفاضل والنساء؛ لوجود العلة."
(کتاب البیوع، باب الربا3/ 83، ط:رحمانیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100710
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن