بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے سفرِ حج کے دوران شوہر کا انتقال ہوجائے تو بیوی کے لیے عدت میں حج ادا کرنے کا حکم


سوال

 میاں بیوی حج کو گئے،سفرِ حج میں  مکہ مکرمہ پہنچ کر حج سے پہلے شوہر کا انتقال ہوگیا ، تو اب عورت ایامِ عدت میں حج ادا کرسکتی ہے یا نہیں؟ اور اگر میاں بیوی حج سے پہلے مدینہ منورہ میں ہوں اور اسی دوران شوہر کا انتقال ہوگیا،توحج کی ادائیگی کے لیے عورت کا عدت کے دوران مکہ مکرمہ آنا درست ہے یا نہیں ؟اس بارے میں مدلل و مفصل راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کےسفرِ حج کے دوران اگر شوہرکا مکہ میں انتقال ہوجائےتوعورت حج کے افعال مکمل اداکرے،بعدازاں جب تک مکہ میں قانوناًٹھہرنے کی اجازت ہے،کوئی محرم ساتھ ہو اورقیام و طعام کا خرچہ بھی میسر ہو ،تو عدت وہیں گزارےگی،بصورتِ دیگروطن واپس آجائےاور عدت اپنے شوہر کے گھر پر گزارے،اوراگر سفرِ حج کے دوران شوہرکا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا تو  خاتون مدینہ منورہ ہی میں اپنی عدت پوری کرے اور حج کو نہ جائے، لیکن اگر خاتون کے لیے مدینہ منورہ میں عدت گزارنے کا کوئی انتظام نہ ہو سکے اور اتنی مدت تک ٹھہرنے کی قانوناً اجازت نہ ہو اور اس کے ساتھ محرم بھی نہ ہو تو مجبوری میں  اپنے گروپ کے ساتھ مکہ مکرمہ جانے اور افعال حج ادا کرنے کی اجازت ہو گی، اور حج سے فارغ ہونے کے بعد اس کو  مکہ مکرمہ ہی میں اپنے قیام گاہ پر عدت گزارنی ہو گی ، لیکن اگر  حج کے بعد مکہ میں قیام قانوناً ناممکن  ہو،یابقیہ ایام کےقیام و طعام کا خرچہ دستیاب نہ ہوتو بدرجہ مجبوری حج کے بعد اپنے وطن واپس آجائےگی، پھر وطن واپس آکر عدت کے بقیہ ایام گزارے گی۔

نیز جس عورت کو دورانِ عدت افعالِ حج کی اجازت ہے اس کو اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت اپنی رہائش گاہ سے باہر نہ نکلے بلکہ عدت کی تمام پابندیوں کا خوب اہتمام کرے، نماز یں بھی رہائش گاہ ہی میں پڑھے، باقی منی عرفات اور مزدلفہ جانے اور طواف و سعی کے لیے حرم میں آئے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والثاني: أن لا تكون معتدة عن طلاق أو وفاة؛ لأن الله تعالى نهى المعتدات بقوله عز وجل: {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن} [الطلاق: 1] . وروي عن عبد الله بن عمر - رضي الله عنه - أنه رد المعتدات من ذي الحليفة. وروي عن عبد الله بن مسعود - رضي الله عنه - أنه ردهن من الجحفة.

ولأن الحج يمكن أداؤه في وقت آخر فأما العدة فإنها إنما يجب قضاؤها في هذا الوقت خاصة فكان الجمع بين الأمرين أولى، وإن لزمتها بعد الخروج إلى السفر ... إن كانت بائنا، أو كانت معتدة عن وفاة ... وإن كان إلى مكة أقل من مدة سفر، وإلى منزلها مدة سفر مضت إلى مكة؛ لأنها لا تحتاج إلى المحرم في أقل من مدة السفر، وإن كان من الجانبين أقل من مدة السفر فهي بالخيار إن شاءت مضت، وإن شاءت رجعت إلى منزلها فإن كان من الجانبين مدة سفر فإن كانت في المصر، فليس لها أن تخرج حتى تنقضي عدتها في قول أبي حنيفة، وإن وجدت محرما، وعند أبي يوسف، ومحمد لها أن تخرج إذا وجدت محرما، وليس لها أن تخرج بلا محرم بلا خلاف وإن كان ذلك في المفازة أو في بعض القرى بحيث لا تأمن على نفسها، ومالها فلها أن تمضي فتدخل موضع الأمن ثم لا تخرج منه في قول أبي حنيفة سواء وجدت محرما أو لا، وعندهما: تخرج إذا وجدت محرما."

(كتاب الحج، فصل شرائط فرضية الحج، ج:2، ص:124، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو وجبت العدة في الطريق في مصر من الأمصار وبينها وبين مكة مسيرة سفر لا تخرج من ذلك المصر ما لم تنقض عدتها، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الحج، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه، ج:1، ص:216، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"أما الواقعة في السفر فإن كان الطلاق رجعيا لا يفارقها زوجها أو بائنا، فإن كان إلى كل من بلدها ومكة أقل من مدة السفر تخيرت أو إلى أحدهما سفر دون الآخر تعين أن تصير إلى الآخر أو كل منهما سفر، فإن كانت في مصر قرت فيه إلى أن تنقضي عدتها، ولا تخرج وإن وجدت محرما خلافا لهما وإن كانت في قرية أو مفازة لا تأمن على نفسها فلها أن تمضي إلى موضع أمن، ولا تخرج منه حتى تمضي عدتها وإن وجدت محرما عنده خلافا لهما كذا في فتح القدير."

(كتاب الحج، ج:2، ص:419، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100553

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں