بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لیے کُل مالِ متروکہ وصیت کرنے کا حکم


سوال

 عرض یہ ہے کہ مندرجہ ذیل وصیت کے بارے میں شرعی احکام کی روشنی میں آپ جناب کے ادارے سے فتویٰ  درکار ہے۔

میں اور میری زوجہ محترمہ اپنی اپنی وصیت کچھ اس طرح سے کرنا چاہتے ہیں:" یعنی میرے نام پر جو بھی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اور نقد رقم اور یا میری کسی اور سے لین داری کی رقم ہے، وہ میری وفات کے بعد فوری طور پرورثاء میں تقسیم نہ کی جائے، بلکہ جب تک میری زوجہ محترمہ حیات رہیں، وہ میری چھوڑی ہوئی وراثت کو کلیۃً استعمال کرنے کی مجاز ہوں، تاکہ فی زمانہ ان کو اپنی ضرورتوں کے لئے اولاد یا کسی اور کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اسی طرح میری زوجہ محترمہ کی ملکیت میں جو بھی نقد رقم اور طلائی زیورات ہیں وہ ان کی وفات کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی وراثت کی حیثیت سے ان کے ورثاء میں فوراً تقسیم نہ کی جائے، بلکہ جب تک ان کا شوہر (یعنی میں) حیات رہوں ان کی (یعنی اپنی زوجہ محترمہ کی)چھوڑی ہوئی وراثت کو کلیۃً استعمال کرنے کا مجاز رہوں۔ اور شرعی وراثتی عمل اور تقاضے ہمارے مرنے کے بعد پورے کیےجائیں۔"

 آپ سے مندرجہ بالا وصیت کے بارے میں تفصیل سے راہ نمائی کے طالب ہیں، اس کے علاوہ  اگر کوئی دوسری صورت ہو تو ضرور تحریر فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور اس کی بیوی اگرایک دوسرے کے حق میں وصیت کرجائیں تو شرعا وصیت معتبر نہیں ہوگی، البتہ اگر دیگر تمام عاقل و بالغ ورثاء اس وصیت کے مطابق کرنے پر راضی ہوں تو جائز ہوگا  اور اگر کوئی وارث  اس وصیت کے نفاذ پر راضی نہ ہو،تو اس کو اس کا مکمل شرعی حق و حصہ ادا کرنا لازم ہوگا۔

لہذا سائل اور اس کی اہلیہ کو نہ تو غیرشرعی وصیت کرنی چاہیے اور نہ ہی اس کا متبادل تلاش کرکےساری جائیداد اور مال و دولت اپنے پاس محفوظ کرنے کے حیلے تلاشنے چاہیے،شریعت نے ہر ایک حق دار سے متعلق جو احکامات لاگو کیے ہیں،اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «إن الله تبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث» وفي هذا حكاية، وهي ما حكي أن سليمان بن الأعمش - رحمه الله تعالى - كان مريضا، فعاده أبو حنيفة - رضي الله عنه - فوجده يوصي لابنيه، فقال أبو حنيفة: - رضي الله عنه - إن هذا لا يجوز، فقال: ولم يا أبا حنيفة فقال: لأنك رويت لنا أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: «لا وصية لوارث» فقال سليمان - رحمه الله -: يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة.

فقد نفى الشارع - عليه الصلاة والسلام - أن يكون لوارث وصية نصا.وأشار إلى تحول الحق من الوصية إلى الميراث على ما بينا فيما تقدم، ولأنا لو جوزنا الوصية للورثة؛ لكان للموصي أن يؤثر بعض الورثة، وفيه إيذاء البعض وإيحاشهم، فيؤدي إلى قطع الرحم، وإنه حرام وما أفضى إلى الحرام، فهو حرام دفعا للتناقض."

(كتاب الوصايا، فصل في شرائط ركن الوصية، ج:7، ص:337، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة، ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الوصايا، الباب الاول،ج:6، ص:90، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  (إلا بإجازة ورثته) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث  (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا، ج: ص: 655 و656، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں