بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے اختلافات میں والد کی دخل اندازی


سوال

شادی کے کچھ عرصے بعد کچھ ناچاقیاں ہوتی ہے ، بہت ہی کم درجے کا مثلاً شادی کے کچھ ہفتے بعد جب حمل ٹھہرنے کا امکان  ہوتو لڑکی کو کام کاج میں دلچسپی نہیں ہوتی یا خود کام کاج سے پیچھے ہٹتی ہے ، تو جب لڑکی کو بتایا جاتا ہے کہ کام کاج نہیں کرتی تو بہت ساری باتیں بتاتی تو ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتی کہ حالت حمل میں کام کرنا صحت کے لیے مثبت ثابت ہوتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ لڑکی کو الگ گھر دیا جاتا ہے تب اسے الگ گھر (یعنی کرایہ گھر) پر جو جو چیزیں (راشن ، استعمال کی چیز وغیرہ وغیرہ ) فراہم کرتا ہے تو وہ اسے اپنے والدین کے ساتھ شئیر کرتا ہے ، والدین جبکہ علیحدہ گھر میں رہتے ہوئے اپنے بیٹی کے گھر میں سے راشن لےجانا جو کہ ناقابل برداشت ہیں ۔ اب شوہر اس حرکت  سے  پریشان ہو کر اپنے والدین کے گھر دوبارہ رہائش پذیر ہونے کے لیے جاتے ہیں تو لڑکی کی والد آکر اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتے ہیں ، والدین کے آگے کچھ نہیں کہتی ، اگر کوئی نقص نکالنا ہو تو صرف شوہر کا نقص دکھاتا ہے ۔

1) والدین کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا جائز ہوگا یا نہیں ؟

2) لڑکی کا والد یعنی سسر کہتا ہے مجھے اپنی بیٹی اس گھر پر نہیں دینی میری بیٹی میرے پاس ہے اور وہ (شوہر) اپنے والدین کے ساتھ ، اور مجھے میری بیٹی کے لیے کاغذ (خلع) بھی نہیں لینی ، اگر برداشت کرنے کی تحمل نہیں ہے تو 2 گواہوں کے ساتھ آکر کاغذ (طلاق) دیدے ۔

3) اب رہا سوال یہ کہ میں طلاق دینا نہیں چاہتا اور اگر خلع مانگے گی اپنے والدین کے کہنے پر پھر بھی نہیں دوں گا کیونکہ وہ میرا رشتے دار (پھوپھی زاد بہن) پہلے ہے اور بعد میں بیوی ۔ کیا اس عمل سے میں گناہ کا مرتکب ہوں گا ؟

جواب

واضح رہے کہ  اسلام  ایک متوازن مذہب ہے، جہاں وہ صلہ رحمی  کاحکم دیتا ہے، وہیں وہ دوسروں کے مال میں بلا اجازت تصرف کرنے سے بھی روکتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شوہر کے گھر سے اس کی مملوکہ  چیز شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو دینے سے منع فرمایا ہےاور شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی بھی چیز خواہ کھانے کی ہو، یا نہیں، کسی کو دینے یا  اپنے میکے لے جانے کی شرعا اجازت نہیں ۔

باقی  شوہر کے ذمہ بیوی کا نان نفقہ اور رہائش کا انتظام ہے، رہائش سے مراد ایسا کمرہ جس میں شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو، نیز اگر بیوی شوہر کے گھر والوں کے ساتھ مشترکہ طور پر کھانا پکانا اور کھانا نہیں چاہتی تو  الگ پکانے کا انتظام کرنا ضروری ہے، یہ سہولت والدین کے ساتھ  ایک ہی گھر میں فراہم کردے تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں، باقی اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت سمجھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، نیز شوہر کے ذمے نان نفقہ اور رہائش واجب ہونے کے باوجود اگر کوئی عورت شوہر کے ساتھ رہ کر شوہر کے والدین کی خدمت کرتی ہے، ان کا خیال رکھتی ہے تو یہ اس کی سعادت ہے،اور  خوش گوار ازدواجی زندگی بسر کرنے کے  لیے لازمی ہے کہ  میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں، ایک دوسرے کے حقوق  کی ادائیگی کی فکر کریں  اور حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ طلاق اور جدائیگی کی نوبت نہ آئے کیوں کہ شریعت کی نظر  میں طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے حدیث شریف میں طلاق کو ابغض المباح کہا گیا ہے یعنی جتنی چیزیں حلال ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق سب سے ناپسندیدہ چیز ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر شوہر  نے بیوی کو یہ تمام حقوق دیئے ہیں اور  بیوی باوجود شوہر کے بلانے کے اس کے پاس نہیں جاتی تو گناہ گار ہوتی ہے ایسی عورتوں کے بارے میں احادیث طیبہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہجب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک سارے فرشتہ اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح ترمذی شریف میں حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی مرد اپنی بیوی کو  اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگر چہ تنور پر روٹی بنارہی ہو ( تب بھی چلی آئے)۔ 

 میاں بیوی اور دونوں  کے گھر والوں کو چاہیے کہ وہ پرانے جھگڑوں کو بھلا کر اب حسنِ سلوک کے وعدے کے ساتھ بیوی کو واپس شوہر کے پاس لے آئیں ؛تاکہ دونوں کا گھر بس جائے اور طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، اور لڑکی والے بھی لڑکی کو شوہر کے حقوق کی ادائیگی کا پابند بنائیں، لیکن اگر  تمام کوششوں کے باوجود نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو شوہر بیوی کو ایک طلاق دے دے ، پھر جب بیوی کی عدت پوری ہو جائے گی تو بیوی شوہر کی زوجیت سے نکل جائے گی، لیکن اس صورت میں شوہر پر  لازم ہو گا کہ مہر کی مکمل رقم  بیوی کو ادا کرے،البتہ اگر بیوی خود  مہر کی رقم کے بدلے خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کو قبول کر لے یا شوہر مہر کے بدلے طلاق دےدے اور بیوی اسے قبول کر لے تو ایسی صورت میں شوہر پر مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی،قصور اگر عورت کا ہو تو شوہر طلاق یا خلع بعوض حق مہر دے سکتا ہے ،  اس میں آپ  گناہ گار نہ ہوں گے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك".

 (الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: دار الفکر )

فتاوى شامي میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك". 

(مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

سنن النسائي میں ہے:

" أخبرنا ‌إسماعيل بن مسعود قال: حدثنا ‌خالد بن الحارث قال: حدثنا ‌حسين المعلم، عن ‌عمرو بن شعيب أن ‌أباه حدثه عن ‌عبد الله بن عمرو قال: «لما فتح رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة قام خطيبا، فقال في خطبته: لا يجوز لامرأة عطية إلا بإذن زوجها».

)كتاب الزكاة، عطية المرأة بغير إذن زوجها، ٥ / ٦٥، ط: المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا، تو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا: "کسی عورت کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں۔"

سنن الترمذي میں ہے:

" حدثنا ‌هناد ، قال: حدثنا ‌إسماعيل بن عياش ، قال: حدثنا ‌شرحبيل بن مسلم الخولاني ، عن ‌أبي أمامة الباهلي ، قال: «سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطبته عام حجة الوداع» يقول: لا تنفق امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها. قيل: يا رسول الله، ولا الطعام؟ قال: ذاك أفضل أموالنا."

)أبواب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب في نفقة المرأة من بيت زوجها، ٢ / ٤٩، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:" حضرت ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا: "عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے"، دریافت کیا گیا: اللہ کے رسول! اور کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: "یہ ہمارے مالوں میں سب سے افضل مال ہے۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي أمامة قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول في خطبة عام حجة الوداع) بفتح الواو وتكسر " لا تنفق " نفي وقيل: نهي، في المصابيح: ألا لا تنفق " امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها " أي صريحا أو دلالة (قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال: " ذلك ") أي الطعام " أفضل أموالنا " أي أنفسنا، وفي نسخة أموال الناس، يعني فإذا لم تجز الصدقة بما هو أقل قدرا من الطعام بغير إذن الزوج، فكيف تجوز بالطعام الذي هو أفضل."

(كتاب الزكاة، باب صدقة المرأة من مال الزوج، الفصل الثاني، ٤ / ١٣٥٨، ط: دار الفكر)

ہدایہ مع فتح القدیر میں ہے:

"وأما وصفه فهو أبغض المباحات إلى الله تعالى على ما رواه أبو داود وابن ماجه عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن أبغض المباحات عند الله الطلاق» فنص على إباحته وكونه مبغوضا".

(كتاب الطلاق،3/ 464،ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة:الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين".

(كتاب النكاح،فصل :وأما بيان ما يتأكد به المهر،2/ 291،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"ما جاز أن يكون مهرا جاز أن يكون بدلا في الخلع كذا في الهداية".

(كتاب الطلاق،الباب الثامن في الخلع وما في حكمه،الفصل الثاني فيما جاز أن يكون بدلا عن الخلع وما لا يجوز،1/ 494،ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً: 

"إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال وكان الطلاق بائنا كذا في الهداية".

(الفصل الثالث في الطلاق على المال1/ 495،أيضاً)

بخاری شریف میں ہے: 

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها ‌لعنتها ‌الملائكة حتى تصبح»".

(كتاب بدء الخلق،‌‌باب إذا قال أحدكم: آمين والملائكة في السماء، آمين فوافقت إحداهما الأخرى، غفر له ما تقدم من ذنبه،4/ 116)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن قيس بن طلق، عن أبيه طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ‌الرجل ‌دعا ‌زوجته لحاجته فلتأته، وإن كانت على التنور»".

(‌‌أبواب الرضاع،باب ما جاء في حق الزوج على المرأة،3/ 457)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501101970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں