بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مٹی والے لباس والوں کو مسجد آنے سے روکنا


سوال

علاقہ شکئی کے گاؤں رابوت میں ایک مسجد ہے اور اس کے ساتھ دائیں طرف چند قدم کے فاصلہ پر گھر بن رہے ہیں، اس کے مزدور جس کپڑے میں کام کرتے ہیں، اس گندے کپڑے میں مسجد آتے ہیں، جو کہ کام کی مٹی ہے، کیا مزدور کے اس گندے (جس کے ساتھ گیلی مٹی لگی ہو، نجاست سے پاک ہو) کپڑوں میں نماز ادا ہوئی یا نہیں؟ اور محلہ والے مزدور کو مسجد سے منع کر سکتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ وہ مسجد میں اس کام کرنے والے کپڑوں میں آتے ہیں، جو کہ گندے ہوتے ہیں۔

منع کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے؟ یا منع کرنا ضروری ہے؟ یا منع نہیں کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ نماز کی  درستی کے لیےکپڑوں کا ناپاک اشیاء سے پاک ہونا ضروری ہے،  جن کپڑوں پر  محض مٹی لگی ہو اور ناپاکی کوئی نہ ہو تو اُن کپڑوں  میں نماز پڑھنا جائز ہے، تاہم مکروہ ہے، لیکن نمازی بحالتِ نماز  چوں کہ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کے در بار میں ایسے لباس میں حاضر ہونا ممنوع ہے، جس لباس کو پہن کر معزز مجمع یا مجلس میں حاضر ہونے میں ناگواری ہوتی ہو  یا اس کو باعثِ عیب و عار سمجھا جاتا ہو؛ اس لیے کوشش کر کے  صاف ستھرے  لباس میں  نماز پڑھنی چاہیے۔

باقی جہاں تک مٹی والے لباس پہننے ولے نمازیوں کو مسجد سے روکنے کا سوال ہے تو اولاً مزدوروں کو چاہیے کہ اپنے کام کے لباس کے علاوہ دوسرا لباس ساتھ رکھیں اور نماز کے وقت لباس بدل کر مسجد آئیں؛ تا کہ نماز بھی عمدہ لباس میں ادا ہو سکے اور مسجد کی تلویث (یعنی: گندگی پھیلانے) اور نمازیوں کیلئے کراہت  کا سبب بھی نہ بنے، اور اگر مزدور ایسا نہیں کرتے تو کسی ایسے با وقار اور سنجیدہ شخص کا انتخاب کیا جائے، جس کے بات کرنے سے نہ تو فتنے کا اندیشہ ہو اور نہ ہی مزدوروں کی ناراضی کا خوف ہو، وہ ان سے بات کرے اور ان کو لباس تبدیل کر کے مسجد آنے پر آمادہ کرے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز کھانے والے کو مسجد کے قریب آنے سے منع فرمایا، معلوم ہوا کہ نمازیوں اور  فرشتوں کی ایذاء کا سبب بننے والے کو مسجد سے روکنا چاہیے، لہذا مسجد کی تلویث کا سبب بننے والوں کو اخلاق سے سمجھایا جائے اور صاف ستھرے کپڑوں میں مسجد آنے پر آمادہ کیا جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وصلاته في ثياب بذلة) يلبسها في بيته (ومهنة) أي خدمة، إن له غيرها، وإلا لا.

(قوله: وصلاته في ثياب بذلة) بكسر الباء الموحدة وسكون الذال المعجمة: الخدمة والابتذال، وعطف المهنة عليها عطف تفسير؛ وهي بفتح الميم وكسرها مع سكون الهاء، وأنكر الأصمعي الكسر، حلية. قال في البحر، وفسرها في شرح الوقاية بما يلبسه في بيته ولا يذهب به إلى الأكابر، والظاهر أن الكراهة تنزيهية. اهـ."

(کتاب الصلاۃ، جلد:1، صفحہ: 640، طبع: سعید)

عمدة القاري ميں هے:

"قال النبي صلى الله عليه وسلم من أكل من هذه الشجرة يريد الثوم فلا يغشانا في مساجدنا ... وألحق بالحديث: كل من آذى الناس بلسانه في المسجد، وبه أفتى ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، وهو أصل في نفي كل ما يتأذى به."

(کتاب مواقیت الصلاۃ، باب ما جاء في الثوم النيء والبصعل والكراث وقول النبي صلى الله عليه وسلم من أكل الثوم أو البصل من الجوع أو غيره فلا يقربن مسجدنا، جلد:6، صفحہ: 146، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں