بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ختم قرآن پر مٹھائی یا کھانا کھلانا


سوال

ہمارے ہاں مدرسے میں حفظ کی چار درسگاہیں ہیں، جن میں تقریباً 117 طلبائے کرام ہیں۔ جس بچے کا تکمیل قرآن ہو تو وہ بچہ تمام طلباء کا مٹھائی کے ذریعے اکرام کرتا ہے یا کھانے کھلاتا ہے۔ نیز انتظامیہ سمیت اساتذہ کرام کو تحفے تحائف بھی دیتا ہے، لیکن انتظامیہ اور اساتذہ کی طرف سے کوئی مطالبہ نہیں ہوتا، یہ سب کچھ طلبائے کرام اور سرپرست اپنی خوشی سے کرتے ہیں۔

لیکن بعض طلبائے کرام جو غریب اور نادار ہوتے ہیں، وہ بھی ان طلبائے کرام کو دیکھ کر اپنے گھر والوں کو اس طرح اکرام کرنے پر مجبور کرتے ہیں ،تو اس طرح اکرام کرنا اور تحائف کو قبول کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ نیز ہماری اس میں کیا شرعی ذمہ داری ہے۔

جواب

جو طلبہ عاقل بالغ ہوں، ایسے طلبہ یا ان کے سرپرست حضرات تکمیل قرآن کے موقع پر محض ترغیب دینے پر  اپنی رضامندی سے، بغیر کسی جبر و اکراہ  کے مٹھائی ،کھانے یا تحائف کا اتنظام کرتے ہوں ، اور دعوت نہ کرنے یا مٹھائی نہ کھلانے کی صورت میں ان پر کسی قسم کی ملامت نہ کی جاتی ہو تو ایسی صورت میں ان بالغ طلبہ کا خود یا ان کے سرپرستوں کا دیگر طلبہ کی دعوت یا اساتذہ کو تحائف دینا اور استاذہ کے لیے وصول کرناجائز ہوگا۔

جن طلبہ کے سپرست غریب ہوں اوراس بات کا احتمال ہو کہ ایسے طلبہ کے سرپرستوں کی قلبی رضامندی نہیں ہے ، ،مجبوراًیہ انتظام کررہے ہیں تو ایسی صورت میں اس طرح  کی دعوت  اور تحائف سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے  اور  اگردعوت کرنے یا تحائف دینے والے طلبہ بالغ نہ ہوں،  یاایسے طلبہ کے سرپرست حضرات بوجہ جبر واکراہ کے اس دعوت و تحائف کا انتظام کرتے ہوں تو ایسی دعوت اور تحائف کا قبول کرنا جائز نہیں  ہوگا ۔

جب انتظامیہ کے علم میں ہے کہ مذکورہ صورت حال میں نادار طلبہ کے والدین مجبور ہوکر یہ سب انتظام کرتے ہیں تو انتظامیہ کو چاہیے کہ مناسب طریقے سے تکمیل کے موقع پر اس طرح کی عمومی دعوت و مٹھائی یا تحائف کے سلسلہ کو ختم کردیں۔انفرادی طور پر اگر اپنی رضا سے کوئی مٹھائی یا تحفہ دیتاہے تو اس کو قبول کرلیاجائے، تاکہ اجتماعی ماحول کی وجہ سے نادار طلبہ اور ان کے سرپرست مجبور نہ ہوں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه".

(مرقاة المفاتيح شرح مشکاۃ المصابیح: باب الغضب والعارية (5/ 1974)، ط. دار الفكر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"وشرطها أن يكون الواهب عاقلا بالغا حرا".

(تبيين الحقائق: كتاب الهبة (5/ 91)، ط. المطبعة الكبرى الأميرية - القاهرة)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"لا تصح هبة الصغير والمجنون والمعتوه ماله ولو بعوض، ولو كان العوض أزيد من المال الموهوب، أي: باطلة، ولذلك لا تجوز الإجازة لو أجاز بعد البلوغ أو الإفاقة؛ لأن الإجازة تلحق بالعقود الموقوفة ولا تلحق بالعقود الباطلة".

(درر الحكام شرح مجلة الأحكام: الكتاب السابع الهبة، الباب الأول، الفصل الثاني في بيان شرائط الهبة (2/ 397)، ط. دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں