بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے لیے قرآن خوانی اور قل کا حکم


سوال

1)کیا میت کو ایصال ثواب کے لیے قرآن پڑھ کر بخشوانے سے اسے ثواب پہنچتا ہے؟ 

2)میت کے سرہانے 2 یا ڈھائی سپارے پڑھنے اور قرآن پاک پڑھنے کے بارے میں وضاحت کیجیے؟

3) قل خوانی کے بارے میں بھی بتادیں؟

جواب

1) واضح رہے کہ جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کے نزدیک قرآن مجید پڑھ کر میت کو ایصالِ ثواب  کرنا جائز اوردرست ہے، ذخیرہ احادیث میں متعدد روایات ایسی موجود ہیں جن میں میت تک اعمال خیرکا ثواب پہنچنا اور پہنچانا ثابت ہے،اور اعمالِ خیر میں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے عزیز و اقارب کا قرآن کریم پڑھنا جائز ہے ؛ لیکن مروجہ طریقہ پر اجتماعی قرآن خوانی کرنا ، جس میں کھانے پینے کا التزام ہو اور قرآن پڑھنے والوں کو اجرت بھی دی جائے، ناجائز و ممنوع ہے، شریعت میں ایصال ثواب  کا کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے،خالص اللہ کی رضاکی خاطر  کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے۔

2) میت کو دفن کرنے کے بعد جب قبر پر مٹی ڈال دی جائے تو میت کے سرہانے  سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں ”الم“ سے ”المفلحون “  تک پڑھنا، اور میت کی پائینتی جانب  سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ”آمن الرسول“ سے آخر تک پڑھنا مستحب ہے، اور حدیث سے ثابت ہے،  اس کے علاوہ میت کے لیے ایصال ثواب کرنا  ہر وقت جائز ہے اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔

باقی   تدفین کے بعد  قبرستان جاکر میت کے لیے ایصالِ ثواب کی غرض سے کوئی بھی قرآنی آیت پڑھی جاسکتی ہے، خواہ سورۂ بقرہ کا اول وآخر پڑھ لیا جائے، لیکن عام حالات میں قبرستان جاکر اسی ہیئت کے ساتھ قبر کے سرہانے اور پائینتی پر  سورہ بقرہ کے اول وآخر پڑھنے سے اجتناب بہترہے، تاکہ آئندہ اس کے اہتمام کا رواج نہ ہوجائے، البتہ اگر کوئی  لازم  اور ضروری نہ سمجھتے ہوئے پڑھ لے تو اس کی اجازت ہوگی ۔قبرستان جاکر کوئی بھی سورت پڑھ کر ، اس کا ایصالِ ثواب کرنا شرعاً جائز اور درست ہے     اور اس میں کسی سورت کی تخصیص نہیں ، بلکہ جو سورت چاہے پڑھ سکتا ہے ، اگر چہ بعض سورتیں مثلاً فاتحہ ، اخلاص ، زلزال وغیرہ پڑھنے کو فقہاء نے مستحسن و مستحب قرار دیا ہے۔ 

3)واضح رہے کہ  شریعت میں ایصال ثواب کے لیے کسی دن یا عمل کی تعیین یا ایصال ثواب میں اجتماعیت ثابت نہیں ہے؛ بلکہ جو شخص بھی کسی مرحوم کو ایصال ثواب کرنا چاہے، وہ حسب سہولت جب چاہے انفرادی طور پر کوئی بھی نیک عمل انجام دے کر اس کا ثواب مرحوم کو بخش سکتا ہے ؛ اسی لیے ایصال ثواب کے لیے اجتماعی قرآن خوانی کا رواج بھی غلط ہے ، لہٰذا کسی کی وفات پر دوسرے یا تیسرے دن رشتہ دار اور دوست واحباب وغیرہ مسجد میں جمع ہوکر جو رسم قل یا  قرآنی خوانی وغیرہ کرتے ہیں ،شرعاً درست نہیں؛ بلکہ بدعت ہے، علاقہ کے علما، ائمہ اور معززین کو حکمت عملی اور حسن تدبیر کے ساتھ یہ رواج ختم کرنا چاہیے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا يعقوب: حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌أحدث ‌في ‌أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد"

‌‌(باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود،٩٠٩/٢،ط : دار ابن كثير)

شرح الصدور للسیوطی میں ہے:

"عن أنس رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم وكان له بعدد من فيها حسنات."

(من دخل المقابر،٣٠٣ ، ط:دار المعرفة)

ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے قبروں پر جاکر سورہ یاسین پڑھی اللہ تعالی (اس یسین پڑھنے کی برکت سے)ان قبروالوں کےساتھ  (حساب و کتاب) میں تخفیف کا معاملہ فرمائے گا،اور اس پڑھنے والے کے لیے بھی اس کے بقدر نیکیاں ملیں گی۔

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا تصدق بصدقة تطوعاً أن یجعلها عن أبویه فیکون لهما أجرها، ولاینتقص من أجره شیئاً". رواه الطبراني في الأوسط. وفیه خارجة بن مصعب الضبي وهو ضعیف".

( باب الصدقة علی المیت، ١٣٨/٣، ط: دار الكتب العلمية )

ترجمہ: جب تم صدقہ کرنا چاہو ، تو اپنے والدین کی طرف سے کرو؛ کیوں کہ اس کا ثواب ان کو ملتا ہے اور تمہارے اجر میں بھی کمی نہیں کی جاتی۔

معجم کبیر میں ہے:

"حدثنا أبو شعيب الحراني , حدثنا يحيى بن عبد الله البابلتي , حدثنا أيوب بن نهيك , قال: سمعت عطاء بن أبي رباح , يقول: سمعت ابن عمر يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:إذا مات أحدكم فلا تحبسوهوأسرعوا به إلى قبره , وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب , وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره". 

( عبد الله بن عمر،٤٤/١٢،  ط: مكتبة ابن تيمية)

وفیہ ایضا:

"حدثنا أبو أسامة عبد الله بن محمد بن أبي أسامة الحلبي، حدثنا أبي ح، وحدثنا إبراهيم بن دحيم الدمشقي، حدثنا أبي ح، وحدثنا الحسين بن إسحاق التستري، حدثنا علي بن بحر، قالوا: حدثنا مبشر بن إسماعيل، حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، قال: قال لي أبي:"يا بني، إذا أنا مت فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي، فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن علي الثرى سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة، وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك".

( من اسمه لجلاج،٢٢١/١٩، ط: مكتبة ابن تيمية)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قراء ة الکافرون إلی الآخر مع الجمع مکروھة؛ لأنھا بدعة لم تنقل عن الصحابة ولا عن التابعین رضي اللہ عنھم کذا فی المحیط "

(کتاب الکراھیة، الباب الرابع فی الصلاة والتسبیح ، ۵/ ۳۱۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة)

          فتاوی شامی میں ہے:

'' ويستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثاً، وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور، ويفرق لحمه.(قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم، واسألوا الله له التثبيت ؛ فإنه الآن يسأل۔» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها''

( كتاب الصلاة ،باب صلاۃ الجنازۃ، ٢٣٧/٢،ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات بحر. وفي شرح اللباب ‌ويقرأ ‌من ‌القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]."

‌‌[‌‌باب صلاة الجنازة،مطلب في زيارة القبور،٢٤٣/٢،ط : دار الفكر]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا كان قبور المسلمين مختلطة بقبور الكفار يقول السلام على من اتبع الهدى ‌ثم ‌يقرأ ‌سورة الفاتحة وآية الكرسي ‌ثم ‌يقرأ ‌سورة {إذا زلزلت} [الزلزلة: 1] وألهاكم التكاثر كذا في الغرائب ."

‌‌[الباب السادس عشر في زيارة القبور وقراءة القرآن في المقابر،٣٥٠/٥،ط : المطبعة الكبرى الأميرية]

الاعتصام میں ہے:

"قال حذیفة رضي اللّٰہ عنه:کل عبادة لم یتعبدها أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلاتعبدوها؛ فإنالأول لم یدع للآخر مقالًا، فاتقوا اللّٰہ یا معشر القراء! وخذوا بطریق من کان قبلکم، ونحوہ لابن مسعود أیضاً، وقد تقدم من ذلک کثیر"

( الباب الثامن في الفرق بین البدع والمصالح المرسلة والاستحسان، فصل: أمثلة عشرة ،٥٣/٣، ط: مکتبة التوحید)

کفایت المفتی میں ہے :

"اس حدیث (في سنن أبي داؤد : إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبره وقال: استغفروا الخ)کے سیاق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام حاضرین ایک ساتھ دعا کرتے تھے؛ کیوں کہ دفن سے فارغ ہونے کے بعد واپس آنے کا موقع تھا، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺواپسی میں کچھ تاخیر وتوقف فرماتے تھے، اور میت کی تثبیت و مغفرت کی خود بھی دعا فرماتے تھے اور حاضرین کو بھی اسی وقت دعا کرنے کا حکم کرتے تھے، کیوں کہ "فإنه الآن یسئل" اس کا قرینہ ہے، پس تھوڑی دیر سب کا توقف کرنا اور حاضرین کو اسی وقت دعا واستغفار کا حکم فرمانااور سب کا موجود ہونا اور اس وقت کا وقت قرب سوال نکیرین ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سب حاضرین کی دعا ایک وقت میں اجتماعاً ہوتی تھی، اور یہی معمول و متوارث ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ اجتماع جو حدیث سے ثابت ہے اجتماع قصداً للدعا یہ بھی نہیں ہے، بلکہ اجتماع قصدی دفن کے لیے ہے، اگرچہ بسبب امور متذکرہ بالا اس وقت دعا بھی اجتماعی طور پر ہوگئی  ."

(إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبره ،٧٢/٤،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503103026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں