بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

میت کے اہل محلہ کے لیےمیت کمیٹی کی طرف سے دیا گیاکھانا کھانے کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض ممالک جیسے (یورپ) میں اگر کوئی بندہ فوت ہو جاتا ہے ،تو جس  میت کمیٹی  (Death Committee) میں وہ شامل تھا اور اس میں فیس ادا کرتا تھا،وہ کمیٹی اس کی پوری تدفین کی انتظام کرتی ہے اور اہل میت کےلیے کھانے کا انتظام بھی کر لیتی  ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ  جو حضرات تعزیت کےلیے آئے ہیں کیاوہ اس کھانے میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اگر چہ یہ حضرات اہل محلہ  ہوں اور دور کے مہمان  بھی نہ ہوں۔ 

جواب

مروجہ میت کمیٹیاں جن میں شمولیت کے لیے ہر ماہ متعین رقم جمع کرانا ضروری ہوتا ہے، اور اسی بنیاد پر کمیٹی میں شامل افراد کے یہاں فوتگی  کی صورت میں تکفین و تدفین اور اہل میت کے لیے  کھانے  کا انتظام کیا جاتا ہے، مذکورہ کمیٹیوں  میں کئی  شرعی سقم پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سےایسی کمیٹیوں کا حصہ بننا،  اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوتا، لہذا مذکورہ کمیٹی  کی جانب سے  فراہم کردہ کھانا (جوکہ   عموماًجمع کردہ رقم سے زائد  مالیت کا ہوتا ہے)  کھانا  کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوگا، رہی بات  فوتگی کے موقع پر اہل میت کے یہاں کھانا کھانے کی توصرف اہل میت کے وہ عزیز واقارب جو دور دور سے آئے ہوں اور ان کی اس روز واپسی نہ ہو سکے یا اہل میت کی تسلی کے لئے ان کا قیام ضروری ہو وہ میت کے گھر کھانا کھالیں تو  ان کے لیے تو میت کے گھر  کھانا کھانا درست ہو گا، باقی قرب وجوار کے تمام تعزیت کرنے والوں کو اپنےاپنے گھروں کو واپس جانا چاہئیے ،نہ میت کے گھر قیام کریں اورنہ ہی کھاناکھائیں ۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم:أنها كانت إذا مات الميت من أهلها، فاجتمع لذلك النساء، ثم ‌تفرقن ‌إلا ‌أهلها وخاصتها، أمرت ببرمة من تلبينة فطبخت، ثم صنع ثريد فصبت التلبينة عليها، ثم قالت: كلن منها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (التلبينة مجمة لفؤاد المريض، تذهب ببعض الحزن)."

(كتاب الأطعمة، باب التلبينة، ج:5، ص:2067، الرقم:5101، ط:دار ابن كثير)

ترجمہ:’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ان کا کوئی رشتہ دار مر جاتا تو عور تیں جمع ہو تیں، پھر سب اپنے گھر چلی جاتیں، مگر خاص خاص اور قریب کی عورتیں رہ جاتیں اور تلبینہ بنانے کا حکم دیتیں، وہ پکایا جاتا، پھر ثرید بنا کر تلبینہ اس پر ڈال دیا جاتا، پھر فرماتیں کہ اسے کھاؤ، اس لیے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور غم کودور کرتا ہے۔‘‘(کشف الباری)

کفایت المفتی  میں ہے:

"(جواب ١٤٣) اہل میت کے گھر ضیافت کھانے کی جو رسم پڑ گئی ہے یہ یقیناً واجب الترک ہے ،صرف اہل میت کے وہ عزیز واقارب جو دور دور سے آئے ہوں اور ان کی امروز واپسی نہ ہو سکے یا اہل میت کی تسلی کے لئے ان کا قیام ضروری ہو وہ میت کے گھر کھانا کھالیں تو خیر ، باقی تمام تعزیت کرنے والوں کو اپنےاپنے گھروں کو واپس جانا چاہئیے ،نہ میت کے گھر قیام کریں نہ ضیافت کھائیں ۔"

(کتاب الجنائز، ج:4، ص:123، ط:دارالاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الإمداد: وقال كثير من متأخري أئمتنا يكره الإجتماع عند صاحب البيت ويكره له ‌الجلوس في بيته حتى يأتي إليه من يعزي، بل إذا فرغ ورجع الناس من الدفن فليتفرقوا ويشتغل الناس بأمورهم وصاحب البيت بأمره."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌ باب صلاة الجنازة، مطلب في الثواب على المصيبة، ج:2، ص:241، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں