بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسواک کے ریشے کو نگلنے کا حکم


سوال

(1) روزے کی حالت میں مسواک کرتے ہوئے مسواک کا ریشہ نگل لينے كا حكم كیا ہے ؟ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ایک سوال کے جواب میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ قصدا نگل گیا تو روزہ ٹوٹ جائےگا اور اگر بلا اختیار حلق کے نیچے اتر گیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ اس سے تو معلوم ہوا کہ حکم کی بنیاد اختیار اور عدمِ اختیار پر ہے اور احسن الفتاوی میں یہ حکم اس طرح مذکور ہے : دانتوں میں اٹکے ہوئے کھانے کا ذرہ اگر چنے کے دانہ سے کم مقدار میں حلق میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے احتراز متعسر ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ مسواک کے ریشہ سے بھی روزہ نہ ٹوٹے گا ، لاشتراك العلة :  اس فتوی سے واضح ہوتا ہے کہ حکم اختیار یا غیرِاختیار پر نہیں، بلکہ چنے کے کم یا زیادہ کی مقدار پر ہے، تو معلوم ہوا، اگر مسواک کا ریشہ چنے کی مقدار سے کم ہو اور اسے جان بوجھ کر کھایا جائے تو اسے روزہ نہیں ٹوٹے گا، جیسے یہ حکم دانتوں میں اٹکے ہوئے کھانے کا ہے ، اسی طرح ایک سوال کے جواب میں حضرت شیخ الاسلام ( دامت برکاتہم ) فتاوی عثمانی میں فرماتے ہیں: " مسواک کرنا تو جائز ہے ، لیکن چبانے سے حتی الوسع پرہیز کرنا چاہیے ، بہتر یہ ہے کہ مسواک پہلے سے بنالی جائے ، تاہم روزہ چبانے سے بھی نہیں ٹوٹتا ،تاوقتیکہ عرق حلق تک نہ پہنچے " اس سے معلوم ہوا کہ ریشے حلق تک پہنچ جائیں تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔

( 2 ) کیاذائقہ والی یا غیر ذائقہ والی مسواک کی جھاگ نگلنے سے روزہ  ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

 واضح رہےکہ روزہ  کی حالت میں مسواک کے ریشہ کو نگلنے کی صورت میں روزے کے ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کے  حکم کا مدار اختیار اور عدمِ اختیار  پر نہیں ہے، بلکہ   ریشہ  کاچنے کے دانہ کی مقدار  سے کم یا زیادہ   ہونے پر ہے،لہذا احسن الفتاوی کا فتوی درست ہے اور فتاوی عثمانی میں ریشہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرق کے حکم کا بیان ہے،لہذا  صورت ِمسئولہ میں:

1)مسواک کا ریشہ اگر چنے کے دانہ کی مقدار سے کم ہو  اور حلق میں چلا جائے تو اس سے روزہ  نہیں ٹوٹے گا اور اگر مسواک کا ریشہ چنے کے دانہ کی مقدار  کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو  اس کو نگلنے کی صورت روزہ ٹوٹ جائے گا ۔

2)مسواک کی جھاگ کو نگلنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وذكر الحسن بن أبي مالك عن أبي يوسف رحمهما الله تعالى أنه لو بقي لحم بين أسنان الصائم فابتلعه فعليه القضاء قال: وهذا إذا كان قدر الحمصة أو أكثر فإن كان دون ذلك فلا قضاء عليه فبهذه الرواية يظهر الفرق بين القليل الذي لا يستطاع الامتناع عنه وبين الكثير الذي يستطاع الامتناع عنه ثم في قدر الحمصة أو أكثر إذا ابتلعه فعليه القضاء دون الكفارة عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى أيضا."

(کتاب الصوم، باب ما یجب فیہ القضاء و الکفارۃ و ما یجب فیہ القضاء دون الکفارۃ، ج:3، ص:142، ط:مطبعۃ السعادۃ مصر)

الدر المختار میں ہے:

"(أو ابتلع ما بين أسنانه وهو دون الحمصة) لانه تبع لريقه، ولو قدرها أفطر"

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم و ما لا يفسده، ص:145، ط:دارالكتب العلمية بيروت)

فتاوي عالمگيري ميں ہے:

"وإن أكل ما بين أسنانه لم يفسد إن كان قليلا وإن كان كثيرا يفسد، والحمصة وما فوقها كثير، وما دونها قليل، وإن أخرجه، وأخذه بيده ثم أكل ينبغي أن يفسد كذا في الكافي، وفي الكفارة أقاويل قال الفقيه - رحمه الله تعالى -: والأصح أنه لا تجب الكفارة كذا في الخلاصة."

(كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد و فيمالا يفسد، ج:1، ص:202، ط:دارالفكر بيروت)

و فيه ايضاّ:

"ولو رمى رجل إلى صائم شيئا فدخل حلقه فسد صومه؛ لأنه بمنزلة المخطئ، وكذا إذا اغتسل فدخل الماء حلقه كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد و فيمالا يفسد، ج:1، ص:202، ط:دارالفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں