بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسواک کا مسنون طریقہ


سوال

مسواک کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ اور مسواک ہاتھ میں پکڑ کر دانتوں پر دائیں بائیں پھیرنا چاہیے یا اوپر نیچے؟

جواب

مسواک کرنا سنت ہے، اور اس کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہیں،  مسواک میں مستحب یہ ہے کہ اس کی لمبائی ایک بالشت اور موٹائی ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی موٹائی کے برابر ہو، استعمال کے بعد چھوٹی ہوجائے تو ایک مشت ہونے کے بعد چھوڑ دے، اور مسواک کو دائیں ہاتھ میں پکڑنا مستحب ہے اور پکڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسواک کو ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھے کے پوروں سے اس طرح پکڑا جائے کہ چھوٹی انگلی (چھنگلی) اور انگوٹھا نیچے کی جانب رہے اور بقیہ انگلیاں اُوپر کی طرف ہوں، اور انگوٹھے کو مسواک کے برش والے حصے کی جانب رکھے اور چھنگلی کی پشت کو دوسری جانب کے آخر میں اور دوسری انگلیاں ان کے درمیان میں اُوپر کی جانب رہیں۔

 مسواک کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ دانتوں اور تالو پر مسواک کی جائے اور داہنی طرف کے دانتوں سے ابتدا ہو، اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے مسواک اوپر کے جبڑے میں داہنی طرف کی جائے، پھر اوپر کی بائیں جانب، اس کے بعد نیچے کے جبڑے میں داہنی طرف اور پھر بائیں طرف کرنا چاہیے۔(کبیری).

مسواک چوڑائی میں یعنی دائیں  سے بائیں طرف کرنی چاہیے، طول (لمبائی/ اوپر نیچے)  میں مسواک کرنا بہتر نہیں، اس لیے کہ اس سے مسوڑھوں کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے، بعض حضرات فرماتے ہیں دونوں طرح کرسکتے ہیں، ان دونوں میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ دانتوں میں چوڑائی میں کی جائے اور زبان پر لمبائی میں کی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله: وأقله الخ ) أقول قال في المعراج ولا تقدير فيه بل يستاك إلى أن يطمئن قلبه بزوال النكهة واصفرار السن والمستحب فيه ثلاث بثلاث مياه ا هـ  والظاهر أن المراد لا تقدير فيه من حيث تحصيل السنة وإنما تحصيل باطمئنان القلب فلو حصل بأقل من ثلاث فالمستحب إكمالها كما قالوا في الاستنجاء بالحجر .

( قوله: في الأعالي ) ويبدأ من الجانب الأيمن ثم الأيسر وفي الأسافل كذلك ، بحر .

( قوله: بمياه ثلاثة ) بأن يبله في كل مرة.

(قوله: وندب إمساكه بيمناه ) كذا في البحر والنهر قال في الدرر لأنه المنقول المتوارث ا هـ  وظاهره أنه منقول عن النبي لكن قال محشيه العلامة نوح أفندي أقول دعوى النقل تحتاج إلى نقل ولم يوجد  غاية ما يقال إن السواك إن كان من باب التطهير استحب باليمين كالمضمضة وإن كان من باب إزالة الأذى فباليسرى والظاهر الثاني كما روي عن مالك.  واستدل للأول بما ورد في بعض طرق حديث عائشة أنه كان يعجبه التيامن في ترجله وتنعله وطهوره وسواكه ورد بأن المراد البداءة بالجانب الأيمن من الفم ا هـ ملخصًا. وفي البحر والنهر: والسنة في كيفية أخذه أن يجعل الخنصر أسفله والإبهام أسفل رأسه وباقي الأصابع فوقه، كما رواه ابن مسعود .

(قوله: وكونه لينًا ) كذا في الفتح.وفي السراج يستحب أن يكون لا السواك رطبا يلتوي لأنه لا يزيل القلح وهو وسخ الأسنان ولا يابسا يجرح اللثة وهي منبت الأسنان ا هـ. فالمراد أن رأسه الذي هو محل استعماله يكون لينا أي لا في غاية الخشونة ولا غاية النعومة  تأمل .

(قوله: بلا عقد ) في شرح درر البحار قليل العقد.

(قوله: في غلظ الخنصر ) كذا في المعراج وفي الفتح الأصبع.

(قوله: وطول شبر ) الظاهر أنه في ابتداء استعماله فلا يضر نقصه بعد ذلك بالقطع منه لتسويته، تأمل. وهل المراد شبر المستعمل أو المعتاد؟ الظاهر الثاني؛ لأنه محمل الإطلاق غالبًا.

(قوله: ويستاك عرضًا لا طولًا ) أي لأنه يخرج لحم الأسنان ، وقال الغزنوي: طولًا وعرضًا ،والأكثر على الأول ، بحر. لكن وفق في الحلية بأنه يستاك عرضًا في الأسنان وطولًا في اللسان جمعًا بين الأحاديث، ثم نقل عن الغزنوي: أنه يستاك بالمداراة خارج الأسنان وداخلها أعلاها وأسفلها ورؤوس الأضراس وبين كل سنتين . (114/1 ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں