بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مثل ثانی میں دی گئی عصر کی اذان کے جواب کا حکم


سوال

کیا اہلِ حدیث کی اذان کا جواب دینا بھی واجب ہے؟ ان کی عصر کی اذان جلدی آتی ہے تو کیا ان کی اذان کا جواب بھی واجب ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ عصر کے ابتدائی وقت میں فقہاءِکرام کے درمیان اختلاف ہے، حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق عصر کا وقت مثل ثانی کے بعد داخل ہوتا ہے، جب کہ دیگر فقہاءِکرام مثل ثانی میں عصر  کا وقت داخل ہوجانے کے قائل ہیں، لہذا مفتی بہ قول کے مطابق  مثل ثانی میں دی گئی عصر کی اذان وقت داخل ہونے سے پہلے دی جانے والی اذان شمار ہوگی، جس کا جواب دینا نہ عملا واجب ہوگا،( یعنی اذان سنتے ہی اپنے کام کاج کو روک کر نماز کی تیاری میں مشغول ہونا اور مسجد کا رخ کرنا واجب نہ ہوگا ) اور نہ ہی قولاً واجب ہوگا، البتہ قولا جواب دینا ممنوع بھی نہ ہوگا۔

رد المحتار على الدر المختارمیں ہے:

"(قوله: إن سمع المسنون منه) الظاهر أن المراد ما كان مسنونا جميعه، فمن لبيان الجنس لا للتبعيض، فلو كان بعض كلماته غير عربي أو ملحونا لا تجب عليه الإجابة في الباقي؛ لأنه حينئذ ليس أذانا مسنونا، كما لو كان كله كذلك، أو كان قبل الوقت، أو من جنب أو امرأة.

ويحتمل أن المراد ما كان مسنونا من أفراد كلماته، فيجيب المسنون منها دون غيره، وهو بعيد تأمل؛ لأنه يستلزم استماعه والإصغاء إليه وقد ذكر في البحر أنهم صرحوا بأنه لا يحل سماع المؤذن إذا لحن كالقارئ، وقدمنا أنه لا يصح بالفارسية وإن علم أنه أذان في الأصح بقي هل يجيب أذان غير الصلاة كالأذان للمولود؟ لم أره لأئمتنا، والظاهر نعم؛ ولذا يلتفت في حيعلته كما مر"

( كتاب الصلاة، باب الأذان، ١ / ٣٩٧، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504100644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں