بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میرے دل سے فارغ ہے سے طلاق کاحکم


سوال

میں نے 2016 میں خلع لی تھی، لیکن میرے شوہر ایک دفعہ بھی وہاں نہیں آئے،  مجھے جج نےخلع دی تھی ، میرے شوہر نے کوئی دستخط  بھی نہیں کیا اور نہ ہی  ناظم نے دستخط  کیا ہے، اس پر میرے شوہر نے کہا کہ یہ خلع  نہیں ہوئی ہے تو ہم نے بنوری ٹاؤن  کے مفتی حضرات سے مشورہ کیا  تو انہوں نے کہا کہ یہ خلع  جائز نہیں ہے ،تو میرے شوہر نے  یہ  بھی بتایا  کہ میں نے ایک دفعہ خلع کی ڈگری  سے دوسال پہلے ایک دفعہ میری  بھابھی سے کہا تھا کہ  میری بیوی میرے دل سے فارغ ہے  اور  یہ جملہ اس نے طلاق کی  نیت  سے کہاتھا ،  تو ہمیں دوسال اس کا پتا نہیں تھا، لیکن میرے شوہرسے میرا کوئی ازدواجی  تعلق  نہیں تھا، بس فون پر ہی  بات چیت  ہوئی، لیکن جب دوسال  بعد خلع لی تو اس نے یہ بات بتائی  تو مفتی  صاحب نے بتایا کہ خلع واقع  نہیں ہوئی، لیکن آپ دوسال پہلے اپنے شوہر کے نکاح سے نکل  گئی تھیں، آپ چاہتی ہیں تو کسی اور سے نکاح کرسکتی ہیں یا اس سے دوبارہ  تجدید نکاح کریں، اس صورت میں اب آپ کےپاس دو طلاق باقی  ہیں، صر ف یہ ایک طلاق دی ہے ۔  لیکن اس دوران ہماری  بات نہیں بنی، میرا ایک بیٹاہے  اس کا کیس  چل رہاہے ، میرے اور شوہر کے درمیان  5سال بعد تھوڑی بہت بات چیت ہوئی  کہ بچے  کی خاطر دوبارہ  رجوع کریں، لیکن کو رٹ میں جج نےکہا کہ فتوی لاؤ اور  ہماری خلع کی کوئی کنفرمیشن بھی نہیں ہوئی ہے uc، ناظم کے دفتر میں کوئی دستخط  بھی نہیں ہوا، نہ میرے شوہر کے دستخط ہوئےہیں ۔ اب ہم دوبارہ رجو ع کرناچاہتےہیں  ، رہنمائی فرمائیں !

جواب

واضح رہے کہ عقدِ  خلع دیگرمالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،جس طرح دیگر مالی معاملہ کے درست ہونے کے  لیے جانبین کی رضامندی شرعًا ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے  لیے بھی زوجین کی رضامندی شرعًا ضروری ہوتی ہے، کوئی ایک فریق راضی ہو ،دوسرا فریق  راضی  نہ ہو توایسا  خلع شرعًا معتبر نہیں  ہوتا ،خواہ وہ عدالتی  خلع ہی کیوں   نہ ہو۔

صورتِ مسئولہ میں سائلہ نے  کورٹ سے جوخلع لیاہے اور کورٹ  سائلہ کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کرچکی ہے،   لیکن اس خلع میں شوہر کی رضامندی   شامل نہیں ہے  اور  نہ ہی  شوہر نے اس خلع  کے پیپر پر دستخط کیے ہیں، تو اس خلع کا  شرعًاکو ئی اعتبار  نہیں ہے اور نہ ہی  اس سے کو ئی طلاق  واقع ہوئی ہے ۔

البتہ سائلہ کو اس کے شوہر نے جو یہ بات بتائی  ہے کہ میں نے  دوسال پہلے بھابھی کےسامنے یہ کہاتھا کہ” میری بیوی  میرے دل سے فارغ ہے “ اور اس سے سائلہ کے شوہر کی نیت طلاق کی تھی تو اس سے سائلہ پر ایک طلا ق بائن واقع ہوچکی ہے  ، نکاح ختم ہوچکا  ہے ، اب رجوع جائز نہیں   ۔ البتہ اگر سائلہ اور اس کی شوہر  دونوں دوبارہ ساتھ رہنے پر رضامندہوں  تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں  ، آئندہ کے لیے سائلہ کے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ، نیزسائلہ  کسی دوسری جگہ نکاح کرنے میں بھی آزاد ہے ۔

فقہ السنۃ میں ہے:

"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة."

(کتاب الطلاق،۲/۲۹۹دارالکتاب العربی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و أما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال: خالعتك، و لم يذكر العوض و نوى الطلاق فإنه يقع."

(باب ا لخلع ج3،ص441،ط:ایچ ایم سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبًّا، ... ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرًا (على نية) للاحتمال ...(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)."

(بابالکنایا ت 3/297 ط: سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"وأما الطلاق بالكناية: (‌وهو ‌كل ‌لفظ يحتمل الطلاق وغيره، ولم يتعارفه الناس، مثل قول الرجل لزوجته: الحقي بأهلك، اذهبي، اخرجي، أنت بائن، أنت بتَّة، أنت بتلة، أنت خلية، برية، اعتدي، استبرئي رحمك، أمرك بيدك) فلا يقع قضاء في رأي الحنفية والحنابلة إلا بالنية أو دلالة الحال على إرادة الطلاق، كأن يكون الطلاق في حالة الغضب، أو في حال المذاكرة بالطلاق."

(باب الکنایات 1/221ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں