بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میری طرف سے فارغ ہے کئی مرتبہ کہنے کا حکم


سوال

میری بیٹی کی شادی فروری 2023 میں ہوئی ، شادی کے کچھ عرصہ بعد گھریلو تنازعات شروع ہوگئے، ایک یا دو تنازعات/ تکرار کے بعد صلح صفائی ہوگئی، بعد ازاں 12 اگست کو پھر گھر میں تکرار ہوئی ،جس کے نتیجے میں 12 اور 13 اگست کی درمیانی رات دو یا ڈھائی بجے کے قریب میری بیٹی کو کہا گیا کہ "گھر سے دفعہ ہو جاؤ"، مختصر یہ کہ ہم مورخہ 13 اگست کو اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے آئے، ( گھر لانے پر پتا چلا کہ وہ تین ٹائم کی بھوکی ہے )۔ بعد ازاں معاملات طے/ختم کرانے کے لئے میں لڑکے کے والد اور چچا کے پاس گیا تاکہ دونوں طرف سے بات چیت کرکے جھگڑے کے معاملات کو حل کیا جاسکے، مختصراًیہ کہ ایک  جرگہ کی گفت و شنید کے دوران لڑکے نے مجھے واٹس ایپ پر میسج لکھ کر اور میری بیٹی کا نام لکھ کر کہا کہ " میری طرف سے فارغ ہے " اب اس کو سنبھال کر اپنے پاس ہی رکھو، میری بیٹی کو بھی کافی میسجز کئے،ہمارے جرگہ ممبر کو بھی میسج کر کے کہا کہ "میری طرف سے فارغ ہے"، "میں اس کو قبول نہیں کرسکتا" ، "سوری" میری بیوی کی بہن یعنی لڑکی کی خالہ کو کال کر کے کہا کہ وہ "میری طرف سے فارغ ہے"، کاغذات ڈلیوری کے بعد بھیج دوں گا"۔ بعد ازاں میری بیٹی کو یہ بھی کہا گیا کہ آپ کا سامان پیک ہے ،لے جائیں، جرگہ ممبرز کے آپسی اتفاق میں بھی اور لڑکے کے باپ نے بھی کال کر کے کہا کہ بات ختم، سامان لے جائیں۔ جناب عالی! مندرجہ بالا تمام باتوں کے علاوہ ہم سب کی طرف سے گھر بسانے کی باتیں ہوئیں، مگر لڑکے کی طرف سے انتہائی گستاخانہ، سخت، نفرت/ ہتک آمیز اور منفی رویہ روا رکھا گیا، آپ جناب سے گزارش ہے کہ ہماری شرعی راہ نمائی فرمائی جائے ،کہ کیا اس سے طلاق واقع ہو گئ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  جملہ  "گھر سے دفع ہو جاؤ"سےطلاق کے وقوع اور عدمِ وقوع کا مدار شوہر کی نیت پر ہے ، اگر شوہر  کی نیت طلاق کی تھی تو اس سے  ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے ،پھر اس کے بعد    "میری طرف سے فارغ ہے "سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی ۔

البتہ  اگر   جملہ  "گھر سے دفع ہو جاؤ" سے طلاق کی نیت نہیں تھی تو  پھر جملہ "میری طرف سے فارغ ہے "سے طلاق کے وقوع اور عدمِ وقوع کا مدار  شوہر کی نیت اور    مذاکرہ طلاق (یعنی اس سے قبل  شوہر کی طرف سے یا بیوی کی طرف سے طلاق لینے دینے کی بات چیت ہو رہی ہو اور  اس کے جواب میں شوہر نے یہ کہا ہو )پر بھی  ہے ،پس اگر مذاکرہ ِ طلاق ہے   تو  بلا نیت ہی ایک طلاق بائن واقع ہو گی وگرنہ نیت دریافت کر لی جائے،اگر شوہر کی نیت طلاق کی تھی  تو  ایک طلاق بائن واقع ہو گی  وگرنہ کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوگی،نکاح بدستور قائم رہے گا ۔

لہذااس تفصیل کی رو سے جو  بھی  صورتِ حال ہو اس کے مطابق عمل کرلیا جائے ، طلاق کی صورت میں رجوع جائز نہیں ہوگا ،البتہ باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ضروری ہو گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. (قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق".

(کتاب الطلاق، باب الکنایات،ج:3،ص:296-297،ط: سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال): ولو قال: أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق؛ لأنه تكلم بكلام محتمل."

(کتاب الطلاق ،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ج:6،ص:72،ط:دار المعرفة)     

فتاوی شامی میں ہے:

" (لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع؛ لأنه إخبار، فلا ضرورة في جعله إنشاء. (قوله: لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح."

(کتاب الطلاق ،باب الکنایات ،ج:3،ص:308، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں