بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرہا نام راکھنے کا حکم


سوال

مرہا  (Mirha)نام راکھنا کیساہے؟ اور اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب

تلاش کے باوجود ہمیں کسی لغت میں "مرها" (میم کے زیر اور ھ کے بعد الف کے ساتھ)   اور’’مِرحا‘‘ (میم کے زیر اور ح کے بعد الف کے ساتھ)   دونوں کا معنی نہیں مل سکا، بے معنی ہونے کی وجہ سے یہ نام رکھنا درست نہیں،اسی طرح  "مَرَ حا" (میم اور را پر زبر  اور آخر میں الف کے ساتھ )  کا مطلب ہے" تکبر کرنا"، اس معنی کے اعتبار سے بھی یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

باقی  "مَرْحیٰ" (میم پر زبر اور را ساکن)  عربی زبان میں یہ لفظ دو صیغے بن سکتاہے:

1- ’’مَرحٰی‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر کے ساتھ )’’مَرِح‘‘ کی جمع  ہے، مرح کا معنی (اترانے والا) یا (ہلکا) آتا ہے، یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

2- ’’مَرحیٰ‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر(الف مقصورہ ) کے ساتھ)  تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح   خوشی سے جھومنا، اور چکی کا پاٹ بھی اس کے معنی ہیں، اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز تو ہوگا، لیکن چوں کہ غلط معنیٰ کا وہم برقرار رہے گا؛ اس لیے نہ رکھنا بہتر ہے۔ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ  لڑکے  کا نام انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے ناموں میں سے  کسی نام پر رکھا جائے، یا اچھا بامعنی عربی نام رکھا جائے،لڑکی کا نام رکھنا ہو تو صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن یا نیک خواتین کے نام پر یا اچھے معنیٰ والا عربی نام رکھا جائے،مزید راہ نمائی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر  موجود اسلامی نام کے حصہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

تاج العروس من جواهر القاموس  میں ہے:

"مَرِحَ، كفَرِحَ: أَشِرَ وبَطِرَ) ، والثلاثةُ أَلفاظٌ مترادفةٌ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِى الاْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ} (غَافِر: 75) وَفِي المفردَاتِ: المَرَحَ: شِدَّةُ الفَرَحِ والتَّوسُّع فِيهِ.(و) مَرِحَ (: اخْتَالَ) ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَلَا تَمْشِ فِى الاْرْضِ مَرَحًا} (الإِسراء: 37) أَي متبختِراً مُخْتَالاً،مَرِحَ مَرَحاً: (نَشِطَ) . فِي (الصِّحَاح) و (الْمِصْبَاح) : المَرَحُ: شِدَّة الفَرَحِ، والنَّشاط حتّى يُجاوِزَ قَدْرَه، (و) مَرِحَ مَرَحاً، إِذَا خَفَّ، قَالَه ابْن الأَثير. وأَمْرَحَه غيرُه. (وَالِاسْم) مرَاحٌ، (ككِتَاب، وَهُوَ مَرِحٌ) ، ككَتِف (ومِرِّيحٌ، كسكِّين، مِنْ) قَوْم (مَرْحَى ومَرَاحَى) ، كِلَاهُمَا جمْع مَرِحٍ، (ومِرِّيحينَ) ، جمْع مِرِّيح، وَلَا يُكسَّر."۔۔۔۔۔۔ومَرْحَى) مَرّ ذِكرُه (فِي برح) قَالَ أَبو عمرِو بنُ العلاءِ: إِذا رَمَى الرّجلُ فأَصابَ قيل: مَرْحَى لَه، وَهُوَ تَعجبٌ من جَودةِ رَمْيِه. وَقَالَ أُميّة بن أَبي عَائِذ:يُصِيب القَنيصَ وصِدْقاً يَقُ.ول مَرْحَى وأَيْحَى إِذا مَا يُوالِي،وإِذا أَخطأَ قيل لَهُ: بَرْحَى.(و) مَرْحَى: (اسمُ ناقةِ عَبْدِ الله بن الزَّبِيرِ)

(ج:7،ص:113، 114، 115 ،ط:دار إحياء التراث)

وفيه ايضاً:

"(وبَرْحَى) ، على فَعْلَى (: كلمةٌ تُقال عِنْد الخطإِ فِي الرَّمْيِ، ومَرْحَى عِنْد الإِصابة) ، كَذَا فِي (الصّحاح) . وَقد تقدم فِي أَي ح أَنّ أَيْحَى تقال عندِ الإِصابة. وَقَالَ ابْن سَيّده: وللعرب كلمتانِ عِنْد الرَّمْيِ: إِذاأَصابَ قَالُوا: مَرْحَى، وإِذا أَخطأَ قَالُوا: بَرْحَى."

(ج:6،ص:311، 312،ط:دار إحياء التراث)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں