بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث سے دست بردار ہونے کا حکم


سوال

 میری ماں کی وفات سے پہلے میرے ماموں نے امی کو کہا تم اگر نانا کی زمین میں اپنا حصہ لینا چاہتی ہو تو لے لو تو میری امی نے انکار کر دیا کہ کیا حصہ لینا 10 مرلہ ہی تو ہے ۔ اس وقت کسی کے نام نہیں تھا۔ 5 بھائی ایک بہن ہیں اب امی کی وفات کے بعد خالہ نے اپنا حصہ لے لیا اور میری امی والی زمین کا کوئی فیصلہ نہیں کہ کس کی ہے۔ اب خالہ کا بیٹا کہتا ہے کیونکہ خالہ دستبردار ہو گئی تھی میں اس جگہ گھر بنا لیتا ہوں۔ جبکہ ہم سب بہن بھائی ایسا نہیں چاہتے اور چاہتے ہیں ہماری ماں کی زمین ہمیں ہی ملے لیکن ابا جان کہتے ہیں تمہاری ماں نے منع کر دیا تھا۔ لیکن وہ زمین ہے کس کی  یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا۔ تو اب کون مالک ہے ؟کیا وہ زمین ہماری بچوں کی ہے یا ہم اسکو لے کے خیرات کر دیں یا امی کے بھائی جس کو مرضی دینا چاہیں  دے سکتے ہیں۔

جواب

واضح رہے  میراث کا حق ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ وارث اپنے حصہ کا  مستحق رہتا ہے لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ  اپنے حصہ سے دست بردار ہونے کے باوجود اپنے حصے کی مستحق تھیں اور اب ان کے انتقال کے بعدمرحومہ کے شوہر اور اس کی اولاد  اس حصے کی مستحق ہیں۔سائل اور ان کے بہن بھائی والدہ کا حصہ وصول کر کے اپنے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں گے اور پھر ہر بہن بھائی اپنی صوابدید پر اس حصے کا جو کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ، چاہیں  تو خیرات کردیں یا چاہیں  تو خود استعمال کریں۔

الأشباه والنظائر  میں ہے:

"ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله، وبيان أن الساقط لا يعود:لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به."

(الفن الثالث ص نمبر ۲۷۲، دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں