بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث سے دست بردارہونے کاحکم


سوال

 ہماری والدہ کاانتقال ہوگیاہے، اوران کاایک مکان تھااورورثاء میں ان کی صرف چاربیٹیاں ہیں ،باقی ان کے شوہراوروالدین اوربھائیوں کابھی ان سے پہلےانتقال ہوگیاتھا، صرف ان کے دوبھتیجے تھے اوربھتیجوں نے وراثت میں سےاپنے حصےمرحومہ کی بیٹیوں کودے دئیےہیں، اوراسٹامپ پیپرپرانہوں نے تحریراً لکھ کربھی دے دیاہے، اب ہمیں یہ مسئلہ معلوم کراناہے کہ اس صورت میں ہماری مرحومہ والدہ کامکان ہم بہنیں اپنے نام پرمنتقل کرواسکتی ہیں یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسےمیراث اور ترکہ میں جائیداد  کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلاعوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ اگرکوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لےکر صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ درست ہے، اسے فقہی اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔

تکملہ ردالمحتار میں ہے :

"الأرث جبري لایسقط بالإسقاط."

 (تکملة ردالمحتار، کتاب الدعوی، باب التحالف، ۸/ ۱۱٦ ط:سعيد)

      شریفیہ شرح سراجیہ  میں ہے :

"فصل في التخارج و هو تفاعل من الخروج و المراد به ههنا أن يتصالح الورثة على اخراج بعضهم عن الميراث بشيئ معلوم من التركة ، و هو جائز عند التراضي."

(شريفيه شرح سراجیه، باب التصحیح ، فصل في التخارج ص:۷۳ط:قدیمی)

لہذاصورتِ  مسئولہ میں اگرمرحومہ کے بھتیجوں نےاپناحصہ وصول کرکےیااپنے حصے کے عوض کچھ لےکراپناحصہ مرحومہ کی بیٹیوں کودیاہے توچونکہ بھتیجوں کا حق اس مکان سے ختم ہوگیاہےاس لیےسائلہ والدہ مرحومہ کامکان اپنے اوربہنوں کےنام منتقل کرواسکتی ہیں ،اوراگرمذکورہ دونوں صورتیں نہیں ہیں تومرحومہ کے بھتیجوں کامیراث سے صرف دست بردارہونے سےان کاحق ختم نہیں ہواہے ،  لہذا بھتیجوں کو چاہیے کہ وہ اپنے حصوں کے بدلے کچھ لے لیں اگر چہ معمولی چیز ہی کیوں نہ ہوا تاکہ ان کاحصہ ختم ہوجائے اور پھوپھیوں کے لیے پورا مکان اپنے نام کرانا درست ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں