بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث اور ورثاء کے شادی بیاہ وغیر کے اخراجات سے متعلق سوالات


سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے،والد صاحب نے تین شادیاں کی تھیں،پہلی بیوی کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا ، ان سے ایک بیٹی بھی تھی،والدصاحب کی حیات میں ان کا اور اس بیٹی کا انتقال ہوگیا تھا،پھر والد صاحب نے دوسری شادی کی تھی،دوسری بیوی کا بھی والد صاحب کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا،ان  سے 4بیٹے ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں،تیسری بیوی جو کہ ہماری والدہ ہیں وہ الحمد اللہ حیات ہیں ،ان سے ہم دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں،والد صاحب کےورثاء میں کل افراد ایک بیوہ،6بیٹے اور 2بیٹیاں ہیں۔

والد صاحب کی جائیداد کی تفصیل حسب ذیل ہے:

(1)فلیٹ نمبر 104:تقریبا 2کروڑ کا ہے،اس میں والدہ ،2غیر شادی شدہ بیٹے،1شادی شدہ بیٹااور ایک غیر شادی شدہ بیٹی رہائش پذیر ہے۔

(2)فلیٹ نمبر 203:تقریبا 2کروڑ اس کی بھی مالیت ہے،اس میں 3 شادی شدہ بیٹے رہائش پذیر ہیں۔

(3)فلیٹ نمبر 101:مالیت تقریبا 80لاکھ ہے،کرایہ پرہے۔

(4)فلیٹ نمبر 101:مالیت تقریبا45لاکھ ہے،یہ فلیٹ فی الحال خالی ہے۔

(5)گھر گلبرگ:یہ گھر کرایہ پر ہے ،اس کاکرایہ 45ہزار روپے آتا ہے،اس سے والدہ فلیٹ نمبر 104کے گیس،بجلی اور فون کے بل ادا کرتی ہیں اور باقی جو رقم بچتی ہے وہ غیر شادی شدہ بیٹا اور بیٹی کی تعلیم پر خرچ کرتی ہیں۔

(6)گھر بحریہ: تقریبا ایک کروڑ 70لاکھ روپے مالیت ہے اور یہ خالی ہے۔

(7)پلاٹ اسلام آباد:خالی ہے،مالیت تقریبا 3کروڑ ہے۔

(8)پلاٹ کراچی:مالیت تقریبا 4کروڑ ہے،اور خالی ہے۔

(9)دوکان:مالیت تقریبا 15لاکھ ہے ۔

(10)کچھ نقدی اور بینک اکاؤنٹس میں بیلنس ہے۔

اب سوال یہ ہےکہ :

(1)والد صاحب کی میراث شرعا کس طرح تقسیم ہوگی؟

(2)نمبر 4 پہ جس فلیٹ کا تذکرہ کیا ہے یہ ہماری آبائی زمین پر پروجیکٹ بنایا گیا تھا تو والد صاحب نے اس میں ایک فلیٹ خریدا تھا،اب ہم 6بھائی چاہتے ہیں کہ اس فلیٹ کو باقی رکھا جائے تو اس میں سے بہنوں اور والدہ کا حصے کیسے ادا کیا جائے؟

(3)گلبرک والے گھر کا جو کرایہ آتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟والدہ کے لیے اس کرایہ کو گھر پراور غیر شادی شدہ بیٹے اور بیٹی پر خرچ کرنادرست ہے؟

(4)تمام بہن بھائیوں کی شادی وغیرہ کے اخراجات والد صاحب نے ادا کیے تھے،اب جو غیر شادی شدہ بہن بھائی ہیں ان کی شادی وغیرہ کے اخراجات نکال کر ترکہ کو تقسیم کیا جائے گا؟یا یہ اپنی شادیاں اپنی وراثت کے حصے سے خود کریں گے؟

(5)والد صاحب نے جو رقم کسی بیٹے یا بیٹی کے لیے اپنی زندگی میں الگ کی ہوئی تھی جس کے بارے میں والدہ کو بتایا ہوا تھا کہ یہ میں نے اس کام کے لیے پیسے رکھے ہوئے ہیں تو ان پیسوں کا کیا حکم ہے۔

(6)والد صاحب کی وفات کے بعد ان کی جو ذمہ داریا ں ہیں ،یعنی ان کی بیوہ اور غیر شادی شدہ بیٹا اور بیٹی ،یہ ذمہ داریاں بقیہ بیٹوں پر کس لحاظ سے تقسیم ہوں گی؟اسی طرح غیر شادی شدہ بھائی جو فلیٹ نمبر 104 میں رہتا ہے،اس کا علاج جاری ہے ،اس پر ماہانہ 60،000روپے خرچہ آئے گا اور تقریبا 3ماہ کا علاج ہے،یہ اخراجات کس کے ذمہ ہوں گے؟

(7)والد صاحب کی دوکان کے بارے میں ہم تمام ورثاء چاہتے ہیں کہ اس دوکان کے کرایہ کو مستقل طور پر کسی مسجد وغیرہ میں ایصال ثواب کردیں،اس کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم کی میراث شرعا اس طرح تقسیم ہوگی کہ سب سے پہلے ان کے ترکہ سے ان کے کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں گے(اگر کسی نے اپنی طرف سے یہ اخراجات اٹھائے ہوں تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان شمار ہوگا اور اس صورت میں ترکہ سے اخراجات نہیں نکالے جائیں گے،لیکن اگر کسی نے واپس لینے کی نیت سے اخراجات کیے ہوں تو اسے ترکہ سے یہ اخراجات ادا کیے جائیں گے)اس کے بعد اگر ان پر کچھ قرض ہو تو کل ترکہ سے ادا کیا جائے گا،پھر اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ترکہ کے ایک تہائی حصے میں اسے نافذ کرکے باقی ماندہ کل ترکہ کے حصے16 کیے جائیں گے جس میں سے2حصے بیوہ کو،2،2حصے ہر بیٹے کو اورایک،ایک حصہ ہر بیٹی کو ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

مسئلہ:8/16

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
222222211

یعنی کل ترکہ میں سے 12.5فیصد بیوہ اور ہر بیٹے کوبھی 12.5 فیصد اورہرایک بیٹی کو6.25 فیصد ملے گا۔

(2)مذکورہ فلیٹ کو جو ورثاء اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتے ہوں وہ اس فلیٹ میں سے دیگر ورثاء کے شرعی حصے کو ان سے خرید لیں ،مثلا اگر سائل اور اس کے بقیہ بھائی اس فلیٹ کو اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتے ہوں اور بیوہ اور بیٹیوں کو حصہ دینا چاہتے ہوں تو تمام بیٹے والدہ اور بیٹوں سے ان کا شرعی حصہ خرید کر ان کو اس کی قیمت ادا کردیں،اس کے بعد تمام بیٹے مذکورہ فلیٹ میں برابر سرابر کے شریک ہوں گے۔

(3)جب تک ترکہ تقسیم نہیں ہوجاتا اس وقت تک ترکہ کی جائیداد سے آنے والے کرایہ میں بھی تمام ورثاء کا حق ہے،اس لیے سائل کی والدہ کے لیے مذکورہ گھر سے آنے والے کرایہ کودیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے،البتہ اگر دیگر ورثاء راضی ہوں یا ترکہ کو اس طور پر تقسیم کیا جائے کہ مذکورہ گھر مکمل طور پر سائل کی والدہ کے حصے میں آجائے تو پھر ان کے لیے اس کا کرایہ اپنی مرضی سے استعمال کرنا جائز ہوگا۔

(4)جن بیٹے بیٹیوں کی شادی کے اخراجات سائل کے والد نے اپنی زندگی میں اپنی طرف سے کیے تھے وہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان تھا،اب جو بیٹے،بیٹیاں غیر شادی شدہ ہیں شرعا ان کی شادی بیاہ اور دیگر اخراجات دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر ترکہ سے نہیں نکالے جاسکتے اس لیے کہ سائل کے والد کے انتقال کے بعد اب ان کے ترکہ میں تمام ورثاء کا حق متعلق ہوچکا ہے،البتہ اگر تمام ورثاء راضی ہوجائیں تو پھر ترکہ سے غیر شادی شدہ بیٹے،بیٹیوں کی شادی بیاہ کے اخراجات نکالے جاسکتے ہیں۔

(5)مذکورہ رقم جو کہ والد مرحوم نے اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کے کام کے لیے الگ کر کے رکھی ہوئی تھی تو چونکہ والد مرحوم نے نہ ہی یہ رقم ان کے حوالے کی تھی اور نہ اس کے بارے میں وصیت کے الفاظ سے وصیت کی تھی لہذا یہ رقم بھی ترکہ شمار ہوکر تقسیم ہوگی۔

(6)شرعا بیوہ اور غیر شادی شدہ بیٹے،بیٹیوں کے اخراجات ،اسی طرح غیر شادی شدہ بیٹے کے علاج کا خرچہ ان کے اپنے مال سے پورا کیا جائے گا،البتہ اگر کوئی ایک یا تمام ورثاء ان کے مصارف برداشت کرنے پر تیار ہوں تو یہ ان کی طرف سے صلہ رحمی اور احسان ہوگا جس پر وہ اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔

(7)اگرتمام عاقل بالغ ورثاء ہر ماہ مذکورہ دوکان کا کرایہ  والد مرحوم کے لیے ایصال ثواب کے طور پرکسی مسجد کے لیے وقف کرنے پر راضی ہوں توایسا کرنا  بھی جائز ہے،دوکان وقف کرنے کی صورت میں پھر مذکورہ دوکان تمام ورثاء کی ملکیت سے نکل جائے گی،اور اگر ورثاء صرف مذکورہ دوکان کا کرایہ مسجد کو دینا چاہتے ہوں تو دوکان کے کرایہ کو کسی مسجد کے لیے وقف کردیں،اس صورت میں دوکان تمام ورثاء کی ملکیت ہی رہے گی البتہ ہر ماہ  کا کرایہ اس مسجد میں دینا لازم ہوگا۔

بہتر صورت یہ ہوگی کہ خود دوکان کو یا دوکان کے کرایہ کوکسی مخصوص مسجد کے لئے وقف کرنے کے بجائےہر ماہ آنے والا کرایہ تمام ورثاء اپنی رضامندی سے ضرورت مند کسی ایک یا کئی ضرورت مند مساجد کو دیتے رہیں،اس لیے کہ مسجد کی تخصیص کرکے وقف کرنے کے بعد پھر اسی مسجد کو دینا لازم ہوجائے گا،چاہے وہاں ضرورت ہو یا نہ ہو۔

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي."

(کتاب الآداب،باب افضل الصدقۃ،ج:1ص:604،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ :

حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے (یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے)مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے،ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی(رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔

(مظاہر حق،ج:3،ص:271،ط:دار الاشاعت)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"لأن التركة ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية."

(کتاب الفرائض،ج:6،ص:759،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 1073) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم."

(الکتاب العاشر:الشرکات،الباب الاول فی بیان شرکۃ الملک،الفصل الثانی،ص:206،ط:نور محمد کارخانہ تجارت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يقضي بنفقة أحد من ذوي الأرحام إذا كان غنيا أما الكبار الأصحاء فلا يقضي لهم بنفقتهم على غيرهم، وإن كانوا فقراء، وتجب نفقة الإناث الكبار من ذوي الأرحام، وإن كن صحيحات البدن إذا كان بهن حاجة إلى النفقة كذا في الذخيرة الخ."

(کتاب الطلاق،الباب السابع عشر فی النفقات،الفصل الخامس فی نفقۃ ذوی الارحام،ج:1،ص:566،ط:رشیدیہ)

محیط برھانی میں ہے:

"إذا قال: جعلت ‌غلة داري هذه صدقة في المساكين، أو قال: داري هذه صدقة في المساكين، فما دام حيا يؤمر بالتصدق، فأما إذا مات قبل تنفيذ الصدقة فالدار والغلة ميراث عنه؛ لأن هذا منه نذر بالتصدق عرفا، ولو نذر بالتصدق صريحا كان الجواب كما قلنا ههنا."

(کتاب الہبۃ و الصدقۃ،الفصل الثانی عشر فی الصدقۃ،ج:6،ص:265،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں