بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں سے بہنوں کو حصہ دینے میں ٹال مٹول کرنا جائز نہیں ہے


سوال

تقسیم ِ وراثت بھائیوں میں تو ہوجائے اور بھائی مالک بن جائیں اور بہنوں سے صرف یہ کہہ دیا جائے کہ تمہارے حصے کی رقم ہم دیں گے، تم اپنے شوہروں کے ساتھ خوش ہو، تمہیں ابھی ضرورت نہیں ہے، ہم نے بچوں کی شادیاں کرنی ہیں ، ہم دوکان میں مال ڈالیں گے ، تمہیں ابھی کیا ضرورت ، اسی اثناء میں ایک بہن کا انتقال ہوجائے اور اس کے دوبچے بھی ہوں اور بھائی صرف زبانی ہمدردی کرتے رہیں اور اپنا  وعدہ پورا نہ کریں اور بہنوں کو حصہ نہ دیں۔

سوال یہ ہے کہ بھائیوں کا بہنوں کے ساتھ  اس طرح ٹال مٹول کا معاملہ  کرنا اور بہنوں کو حصہ نہ دینا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بھائیوں کا بہنوں کو ان کے موروثی  حصے سے محروم کرنا اور ان کے ساتھ ٹال مٹول  کا معاملہ کرنا شرعاً ناجائز ہے، بھائیوں کے لیے بہنوں کی رضامندی کے بغیر ان  کا حصہ اپنے استعمال میں رکھنا شرعاً حرام ہے، لہذا بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ بہنوں کو ان کا شرعی حصہ دیں اور جو بہن فوت ہوگئی ہے، اس کا حصہ اس کے ورثاء کے حوالے کریں، بصورتِ دیگر بھائی  گناہ گار ہوں گے اور آخرت میں اس پر سخت پکڑ ہوگی۔

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغصب،باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا:6 /166،رقم: 11545 ،ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما حكم الغصب فله في الأصل حكمان: أحدهما: يرجع إلى الآخرة، والثاني: يرجع إلى الدنيا. أما الذي يرجع إلى الآخرة فهو الإثم واستحقاق المؤاخذة إذا فعله عن علم؛ لأنه معصية، وارتكاب المعصية على سبيل التعمد سبب لاستحقاق المؤاخذة، وقد روي عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى من سبع أرضين يوم القيامة» ...(أما) الذي يرجع إلى حال قيامه فهو وجوب رد المغصوب على الغاصب۔"

(کتاب الغصب،فصل في حكم الغصب: 7/ 148، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں