بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میراث میں عورتوں کا حصہ ہے؟


سوال

کیا عورتوں کے لیے حصہ ہے،  اس (ترکے) میں سے جو میّت چھوڑدے؟

جواب

از رُوئے شرع  میّت کے مرنے کے بعد اس کے ترکے   میں جیسے نرینہ  رشتہ دار اپنے شرعی مقرر شدہ حصوں کے تناسب سے حق دار ہوتے ہیں ایسے ہی خواتین بھی یعنی والدہ، بیوہ، بیٹی، بہن اپنے شرعی مقرر شدہ حصوں اور میراث کے اصولوں  کے تناسب سے حق دار  ہوتی ہیں، اور کسی بھی خاتون کے میت کی میراث میں حق دار ہونے کی صورت میں  ان کو ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا اور نرینہ رشتہ داروں کا قبضہ کرلینا  ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے، میراث میں کسی بھی حق دار کو  اس کا حق اور  حصہ  اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے ، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، احادیثِ مبارکہ  میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں، جیسے کہ مروی ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعاریة، ج:1، ص:254، ط: قدیمی)

ترجمہ: حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں