بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں بہنوں کا بھی حق ہے، ترکہ کے مال سے حاصل شدہ منافع تمام ورثا میں تقسیم ہوں گے


سوال

میرے سسر کا کپڑے کا کاروبار تھا، ان کے پاس ایک مکان اور ایک دوکان تھی، دکان پگڑی کی تھی، سسر   کا انتقال ہوا ، ورثاء میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں،  سسر كے انتقال کے   وقت میرے شوہر  اور  ان کے بڑے بھائی  شادی شدہ  تھے، دو بھائی چھوٹے تھے، ان کی شادی نہیں ہوئی تھی، سسر  کے انتقال کے بعد بھائیوں نے  میرا اور میری جیٹھانی (شوہر کے بڑے بھائی کی بیوی) کا زیور لیا اور اس سے دوسری دکان پگڑی پر لی،  ایک دکان میرے شوہر اور ان  کے بڑے بھائی دونوں کے نام پر تھی اور دوسری دکان دو چھوٹے بھائیوں کے نام پر تھی، اس کے بعد میرے شوہر نے وہ دکان چھوڑ دی،  جب میری بیٹی کی شادی ہوئی تو میرا زیور مجھے واپس دے دیا  اور شوہر نے اپنا الگ کاروبار شروع کردیا،  آج سے گیارہ سال پہلے شوہر کا بھی انتقال ہو گیا ، ورثاء میں  بیوہ،  ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔

میرے شوہر کے تین بھائیوں نے سسر کے کاروبار کو سنبھالا اور سسر کے انتقال کے بعد اس مشترکہ  کاروبار سے نفع کمایا، اس میں سے نہ   میرے شوہر کو حصہ دیا اور نہ ہی   تین بہنوں کو ، اور اسی   کاروبار سے مزید تین گھر بنائےہیں،   ابھی تک ان کو تقسیم بھی نہیں کیا ہے،   پگڑی کی دونوں دکانیں چار کروڑ روپے میں  فروخت کی ہیں،( دونوں کانوں میں میں کچھ کا م  بھی  کروایا  تھا) ،  اس میں سے ہر ایک بھائی نے ایک ایک کروڑ روپے لیے اور میرے شوہر کے ایک کروڑ روپے مجھے  دیے، جس میں ان کی بہنوں کا بھی حصہ تھااور  مجھ سے اورمیرے بیٹوں سے کہا کہ :"اب تم جانو اور پھوپھیاں جانیں"، ان میں سے 1250000 شوہر نے بھائیوں سے قرضہ لیا تھا، اس کی مد میں واپس کردیے ،پھر  تین بھائیوں نے  بہنوں کو اپنے اپنے حصوں میں سے ان کا  شرعی حصہ دے  دیا ، لیکن میں نے شوہر کی بہنوں کو ایک کروڑ میں سے حصہ نہیں دیا۔

اب سوال یہ ہے کہ :

کیا میرے شوہر کے حصے میں سے بھی ان کی بہنوں کو حصہ دینا لازمی ہے ؟

ان تین بھائیوں نے اس کاروبار سے مزید تین گھر بنائے ، اس میں میرا اور میرے بچوں کا کوئی حق بنتا ہے یا نہیں ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں   چوں کہ سائلہ کے سسر  کی دکانوں میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کا بھی حق تھا، لیکن بیٹوں نے دکانیں فروخت کرکے رقم آپس میں تقسیم کردی تھی ، پھر بقیہ بیٹوں نے اپنے اپنے حصوں میں سے بہنوں کو حصہ دے دیا ، لیکن سائلہ کے شوہر  کے حصے میں جو  رقم سائلہ کو دی گئی ، اس میں  چوں کہ سائلہ کے شوہر کی بہنوں کا بھی حق تھا؛ لہذا سائلہ  پر سب سے پہلے شوہر کی بہنوں کو  اس رقم سے ان کا حصہ دینا لازم ہے، پھر بقیہ رقم شوہر کے  ورثاء میں تقسیم  ہو گی۔

2۔اگر سائلہ کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ سائلہ کے سسر کے کاروبار کو سائلہ کے دیوروں نے بڑھایا اور اس سے نفع کمایااور اس کمائی سے تین گھر بنائے تو والد(سائلہ کےسسر) کے کاروبار سےبیٹوں نے   جتنا کچھ کمایا ، اس  میں سائلہ کے سسر کے   تمام ورثاء کا حق ہے، جن میں سائلہ کا شوہر بھی داخل ہے ،اب اس کی وفات کے بعد  اس کا حق ان کے ورثاء کو ملے گا۔

مشکوٰۃ شریف میں ہے:

عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» .

(کتاب الفرائض ، باب الوصایا ، الفصل الثالث/1/462/ط،البشرٰی).

ترجمہ:       حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم  صلیٰ  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  :کہ جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

(مظاہر حق: 3/236،ط: دارالاشاعت )

فتاویٰ شامی میں ہے:

"شركة ملك ، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما هو الحق؛ فلو دفع المديون لأحدهما فللآخر الرجوع بنصف ما أخذ۔"

(کتاب الشرکۃ : 4 / 299 ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

"والربح في شركة الملك على قدر المال۔"

(مطلب فیما یبطل الشرکۃ : 4 / 316 ، ط : سعید)

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے  :

( المادة 1073 ) ( تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم.

(القواعد الکلیة / 3 / 22 / ط: دار الکتب العلمیة)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144305100653

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں