بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں تاخیر کرنا


سوال

میرے والد صاحب نے وفات کے وقت ایک مکان وراثت میں چھوڑا تھا جس میں ہم بھائی اور والدہ رہتے ہیں بہنوں کی شادی ہو گئی تھی ایک بہن کی شادی اسی سال ہوئی ہے اب اس مکان کو ابھی تقسیم نہیں کیا اور والد صاحب کی وفات کو تین سال ہو گئے اب یہ جو تین سال گزرے ہیں ان کا ہم بھائیوں پر گناہ ہے اور اگر ہے تو اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔

جواب

میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے،بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا درست نہیں،اس لیے کہ اگر بر وقت میراث کی تقسیم نہ  کی جائے تو آگے چل کر بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار وارث کی حق تلفی ہو جاتی ہے جو کہ عظیم گناہ ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں اس تاخیر والی غلطی کا ازالہ یہی ہے کہ جلد از جلد میراث کی شرعی تقسیم کریں اورشادی شدہ بہنوں سمیت تمام ورثاءکو ان کا حق دےدیں اور اگر ورثاء کے مطالبے کے باوجود تقسیم نہیں کی تھی تو ورثاء سے معافی مانگنا بھی لازم ہے،اور اگر باہمی رضامندی سے مشورہ سے جلدی یا دیر میں فائدہ سب کا ہو تو مزید تاخیر بھی کر سکتے ہیں یا بھائی بہنوں کے حصےکا کرایہ طے کر کے بھی انہیں فائدہ دے سکتے ہیں۔

ہدایہ میں ہے : 

"القسمة في الأعيان المشتركة مشروعة، لأن النبي - عليه الصلاة والسلام - باشرها في المغانم والمواريث، وجرىالتوارث بها من غير نكير، ثم هي لا تعرى عن معنى المبادلة، لأن ما يجتمع لأحدهما بعضه كان له وبعضه كان لصاحبه فهو يأخذه عوضا عما بقي من حقه في نصيب صاحبه فكان مبادلة وإفرازا، والإفراز هو الظاهر في المكيلات والموزونات لعدم التفاوت، حتى كان لأحدهما أن يأخذ نصيبه حال غيبة صاحبه، ولو اشترياه فاقتسماه يبيع أحدهما نصيبه مرابحة بنصف الثمن، ومعنى المبادلة هو الظاهر في الحيوانات والعروض للتفاوت حتى لا يكون لأحدهما أخذ نصيبه عند غيبة الآخر."

( کتاب القسمة ، ج:9 ص: 425 ، ط : دار الفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

 "دار بين رجلين نصيب أحدهما أكثر فطلب صاحب الكثير القسمة وأبى الآخر فإن القاضي يقسم عند الكل وإن طلب صاحب القليل القسمة وأبى صاحب الكثير فكذلك وهو اختيار الإمام الشيخ المعروف بخواهر زاده وعليه الفتوى."

 (كتاب القسمة، الباب الثالث في بيان ما يقسم و مالا يقسم و ما يجوز من ذلك و ما لا يجوز۔ ج: 5، ص: 207، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے : 

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم ‌بطلب ‌كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول."

( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں