بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 جُمادى الأولى 1446ھ 05 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں سے بہنوں کو حصہ نہ دینا اور ترکہ کی زمین کی زکات ان کو دینا


سوال

بہن کو اس جائیداد سے زکوٰۃ دینا کہ جس میں بطورِ میراث کے اس کا بھی حصہ ہو، جائز ہے؟ تفصیل اس طرح ہے کہ ہمارے علاقہ میں لوگ بہنوں کو جائیدادمیں میراث کا حصہ نہیں دیتے، اسی جائیداد سے بہنوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں، چوں کہ جائیداد میں بہن کا حصہ بھی ہے، تو کیا اس جائیداد کی زکوٰۃ بہن کو دینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مورث کی وفات کے بعد تمام ورثاء اس کے ترکہ میں اپنے اپنے شرعی حصوں کے حساب سے مستحق ہوتے ہیں، کسی بھی ایک وارث کے لیےدوسرے وارث کے حصے پر قبضہ کرنا اور اسے اس کا حق نہ دینا ناجائز اور حرام ہے اور ناحق مال کھانے کے زمرے میں ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ: "جس نے کسی کی ایک بالشت زمین  پر بھی ظلماً قبضہ کیا، تو کل قیامت کے دن وہ زمین اس کے گلے میں سات زمینوں کے برابر طوق بنا کر ڈالی جائے گی۔"

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بھائیوں پر لازم اور ضروری ہے کہ بہنوں کا حصہ قبضہ کرنے اور ان کو ان کا حصہ نہ دینے پر اللہ کے حضور صدقِ دل سے توبہ اور استغفار کریں اور جلد از جلد اپنی بہنوں کو میراث سے ان کا حصہ ادا کریں، ورنہ کل قیامت کے دن اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کے مستحق ہوں گے۔

باقی جہاں تک بہنوں کو میراث کی زمین کی زکوٰۃ دینے کا سوال ہے، تو یہ بات واضح رهے  کہ زکوٰۃ اس زمین پر لازم ہوتی ہے، جو  تجارت کی نیت سے خریدی جائے اور اس پر سال گزر جائےتو اس کی قیمت پر زکوٰۃ لازم ہوتی ہے۔

موروثہ زمین پر بھی تقسیم سے قبل زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی، نیز اگر زمین ہی تقسیم کرکے دی جائے تو اس پر بھی اس وقت زکات لازم نہیں ہوتی جب تک اسے فروخت نہ کردیا جائے، اور اگر تقسیم  کے وقت زمین فروخت کرکے نقد رقم دی جائے  تو جو نقد رقم جائے گی اس کی زکوٰۃ  اس کے سابقہ مال کے ساتھ ملا کر ادا کی جائے گی۔

البتہ اگر پھر بھی بھائی بہنوں کو حصہ نہ دیں اور  بہنیں مستحقِ زکات بھی ہوں،تو ان کو زکات دی جاسکتی ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ. "[البقرة:188]

صحیح بخاری میں ہے:

"من ‌أخذ ‌شبرا ‌من ‌الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."

(كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في سبع أرضين)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ‌الدين ‌الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث، أو بصنعه كما لوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع، والصلح عن القصاص، وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض."

(کتاب الزکوٰۃ، ج:2، ص:10، ط:دار الکتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503101990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں