بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی جائیداد میں سے بعض ورثاء کو پلاٹ دینے کے بعد اس کو میراث کا حصہ سمجھنا


سوال

ہمارے والد صاحب نے اپنی پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد میری والدہ سے شادی کی تھی،  پھر میری والدہ بھی وفات پاگئی (میرے والد کا پہلی بیوی سےدو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، اور میری والدہ سے صرف دو بیٹے تھے)  اس کے کئی سالوں بعد میرے والد صاحب بھی انتقال کرگئے، چونکہ میرے والد صاحب بھی میری سوتیلی والدہ کے شرعی وارث تھے، میراث میں سے ان کا حصہ ہم چار بھائی اور ایک بہن کے درمیان بقدر حصص تقسیم ہونا ہے، جس کی بابت آپ سے فتوی بھی لیا ہے،  میرے بڑے سوتیلے بھائیوں نے ہم دونوں ماں باپ شریک بھائیوں کومشترکہ طور پر(یعنی ہر ایک کو اس کا حصہ الگ کرکے نہیں دیا)  رہائشی مکان کی تعمیر کے لیے اپنی والدہ کی جائیداد میں سے ایک پلاٹ دیا تھا،جس پر اب میں تعمیر کرچکا ہوں، دیتے وقت اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی کہ یہ ان کی والدہ کے ترکہ میں سے والد کے توسط سے ہم دونوں بھائیوں کا حصہ ہے، اب جب میں نے ان کی والدہ کے ترکہ میں سےجو حصہ میرے والد صاحب کو مل رہاتھا، اس سے  اپنے حصے کا مطالبہ کیا،  تو ایک سوتیلا بھائی کہہ رہا ہے کہ جو پلاٹ دیا گیا تھا وہ تمھارا حصہ ہے۔ 

میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ پلاٹ سوتیلی والدہ کے ترکہ میں سے ہمارا حصہ سمجھا جائےگا، یا ہمارے لئے ہبہ شمارہوگا ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  ہبہ درست ہونے کے لیےیہ ضروری ہے کہ موہوبہ چیز ( ہبہ کی ہوئی چیز) واہب (ہبہ کرنے والے) کی ملکیت ہو اس کے ساتھ کسی اور کا کوئی حق متعلق نہ ہو، نیزقابل تقسیم چیز میں یہ بھی ضروری ہے اگر موہوب لہ (جس کو ہبہ کیاجارہاہے) متعدد ہو تو ان میں سے ہر ایک کو اس کا حصہ الگ کرکے  مالکانہ اختیارات کے ساتھ  حوالے کیاجائے، بصورت دیگر ہبہ درست نہیں ہوگا۔

 مذکورہ تفصیل کی روشنی میں صورتِ مسئولہ  میں مذکورہ پلاٹ اکیلے دونوں سوتیلے بھائیوں کی ملکیت نہیں تھا بلکہ اس میں دوسرے ورثاء کا بھی حصہ تھا، نیز سائل کے سوتیلے بھائیوں   نے اس پلاٹ کو باقاعدہ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کا حصہ بھی الگ کرکے نہیں دیاتھا،بلکہ پورا پلاٹ بغیر تقسیم کے دونوں کو دیاتھا، اس لیےمذکورہ پلاٹ نہ تو ہبہ ہے اور نہ میراث کاحصہ ، بلکہ یہ بدستور   مرحومہ  کا ترکہ شمار  ہوگا جو تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا۔

تاہم سائل نے اس پلاٹ پر جو مکان بنایا ہے، میراث کی تقسیم سے پہلے ، اس پر جتنے اخراجات آئے تھے وہ سائل  منہا کرسکتےہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

(ومنها) أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم وتجوز فيما لا يقسم۔۔۔۔۔۔(ولنا) إجماع الصحابة - رضي الله عنهم - فإنه روي أن سيدنا أبا بكر قال في مرض موته لسيدتنا عائشة - رضي الله عنها - إن أحب الناس إلي غنى أنت وأعزهم علي فقرا أنت وإني كنت نحلتك جداد عشرين وسقا من مالي بالعالية وإنك لم تكوني قبضتيه ولا جذيتيه وإنما هو اليوم مال الوارث اعتبر سيدنا الصديق - رضي الله عنه - القبض والقيمة في الهبة لثبوت الملك۔

(کتاب الہبہ ،فصل فی شرائط رکن الہبہ:ج،6/ص:120:ط،سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

(وشرائط صحتها في الواهب العقل والبلوغ والملك) فلا تصح هبة صغير ورقيق، ولو مكاتبا،(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح۔

(کتاب الہبۃ:ج،5:ص،687:ط،سعید)

وفیہ ایضاً:

(‌وهب ‌اثنان دارا لواحد صح) لعدم الشيوع (وبقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع فيما يحتمل القسمة أما ما لا يحتمله كالبيت فيصح اتفاقا۔

(کتاب الهبة:ج،5:ص،697:ط،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100892

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں