بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث تقسیم کرنے کی صورت ،عدت وفات گزرنے کے بعد بیوہ کی سکونت


سوال

میری بیٹی کے سسر کا انتقال ہوگیا ہے، ورثاء میں بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں،  پھر ایک بیٹے ( جو کہ میرا داماد ہے) کا انتقال  ہوگیا، ورثاء میں بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے، بیٹی کے سسر نے ایک مکان چھوڑا تھا،  جو اس کے دوسرے دو بیٹوں نے بیچ دیا ۔

پوچھنا یہ ہے کہ اس میں میرے داماد اور اس کے بیوی بچوں کاحصہ ہے ؟

مکان سوا تیس کروڑ کا فروخت ہوا ہے، اسی طرح میرے سسر کا  ایک دکان بھی ہے،  جس کی قیمت تقریباً اڑھائی کروڑ ہے،   مذکورہ رقم میں ہر ایک وارث کا حصہ واضح کریں۔

کیا میری بیٹی  ان کے ساتھ رہے گی  ؟کیوں کہ وہ اس کے لیے نامحرم ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم یعنی سائل کی بیٹی کے سسر کی میراث اس کے ورثاء میں تقسیم کرنے  کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ سے اس کے  حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا  قرض ہو اس  کی ادائیگی کے بعد،  اگرمرحوم نے کوئی جائزوصیت کی ہو تو تہائی مال سے اسے نافذ کرنے کے بعد،  باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے1152 حصے کرکے200حصے مرحوم کی بیوہ کو، 336 حصے ہر ایک زندہ بیٹے کو، 42حصے مرحوم بیٹے  کی بیوہ کواور 119 حصے اس کے ہر ایک بیٹے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے

میت:1152/24/8

بیوہبیٹابیٹابیٹا
17
3777
144فوت336336

میت:48/24مف7

بیوہوالدہ بیٹابیٹا
3417
681717
4256119119

یعنی مذکورہ رقم(327500000) میں سے 56,857,638.888روپےمرحوم کی بیوہ کو ، 95,520,833.333روپے ہر ایک زندہ بیٹے کو، 11,940,104.166 روپے مرحوم بیٹے کی بیوہ کواور 33,830,295.138روپے اس کے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

 شوہر کے متروکہ  مکان میں اگر اس کی بیوہ  کو  اتنا حصہ ملتا ہو کہ جس میں وہ رہائش اختیار  کرسکے تو وہ اسی میں رہائش اختیار کرسکتی  ہے،  البتہ ایسی صورت میں بیوہ پر شوہر کے بھائیوں سے پردہ کرنا لازم ہے،  اور اگر اتنا حصہ نہیں بن رہا یا شوہر کے ترکہ میں مکان  ہی نہ ہو اور بیوہ کی اتنی وسعت بھی نہیں  ہوکہ وہ اپنے لیے الگ سے مکان بنائے تو سائل پر لازم ہے کہ اس(بیٹی) کواپنے گھر میں جگہ دے۔

بدائع الصنائع میں ہے: 

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم، كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة"

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، فصل في أحكام العدة، ج:3، ص: 205، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100869

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں