میرے والد صاحب نے دو نکاح کیے، پہلے نکاح کی صورت میں ہم چھ بہن بھائی ہیں، چار بھائی اور دو بہنیں، دوسرے نکاح کے بعد کوئی اولاد نہیں ہوئی، یعنی ہماری دوسری سوتیلی والدہ ہیں، ان سے کوئی اولاد نہیں ہے، والد صاحب کی دوسری شادی تقریباً دس سال تک رہی، پھر والد صاحب کا انتقال 2018ء میں ہوا،انتقال سے پہلے والد صاحب کو کینسر تھا، جس کے علاج کے پیسے بھائیوں نے دو لاکھ قرضہ لے کر والد صاحب کا علاج کروایا، مگر والد صاحب کا انتقال ہوگیا اس بیماری میں،میری سوتیلی والدہ نے اپنی عدت کا کچھ حصہ میرے والد کے گھر گزارا اور کچھ حصہ اپنے بھائیوں کے یہاں،میرے والد صاحب نے میری سوتیلی ماں کے نام پر جائیداد میں سے کوئی حصہ یا کوئی رقم مختص نہیں کی جیسا کہ عام طور پر دوسری شادی کے وقت سسرال والوں کا اصرار ہوتا ہے، میرے والد صاحب کی کل ملکیت میں 450 میٹرزمین ہے، اس کو فروخت کرنے کے بعد جو رقم حاصل ہو تو اس میں سے میرے بھائیوں کا وہ قرضہ جو والد صاحب کے علاج پر خرچ ہوا، اس کا کیا حکم ہے؟چھ بہن بھائی کا کیا حصہ ہوگا، سوتیلی والدہ کا کیا حصہ ہوگا؟
وضاحت: سائل کی والدہ کاسائل کے والد کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا، نیز سائل کے والد کے والدین کا سائل کے والد کی زندگی ہی میں انتقال ہوگیا تھا،نیز سائل اور سائل کے بھائیوں نے دو لاکھ کا قرض لیا تھا،ان کی نیت والد صاحب کے ساتھ تبرع واحسان کی تھی۔
1۔ صورتِ مسئولہ میں سائل اور سائل کے بھائیوں نے جو دو لاکھ روپے قرض والد صاحب کے علاج پرخرچ کیےتھے وہ چوں کہ والد صاحب پر تبرع واحسان کے طور پر تھا، لہذا اس رقم کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، یہ رقم والد کے ترکہ میں سے منہا نہیں کی جائے گی۔
2۔صورتِ مسئولہ میں سائل کے مرحوم والد کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیز وتکفین کے اخراجات) ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ، اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں سے اسے نافذ کرنے کےبعد باقی تمام ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 80 حصوں میں تقسیم کرکے10حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 7 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
میت(والد):80/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||
10 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے12.5فیصد سائل کے مرحوم والد کی بیوہ کو،17.5فیصد سائل کے مرحوم والد کے ہر ایک بیٹے کو اور 8.75فیصد سائل کے مرحوم والد کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
العقود الدریہ میں ہے:
"ومنها في أحكام السفل والعلو: المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(کتاب الکفالة، ج:1، ص: 288، ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403102250
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن