بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدار عفو نجاست کیا پاک ہے؟ مقدار عفو نجاست پر گیلا ہاتھ لگ گیا


سوال

1۔ ایک درہم سے کم ناپاکی لگ جائے تو معاف ہے، جب ایسے کپڑے کو بالکل پاک کپڑوں کے ساتھ اکھٹے واشنگ مشین میں دھوتے ہیں تو کیا اتنی ناپاکی جو ایک درہم سے کم ہو ،کی وجہ سے وہ پاک کپڑے ناپاک تو نہیں ہوں گے؟

2۔ اگر شلوار پر پیشاب کے قطرے ایک درہم سے کم لگے  ہوں جو کہ معاف ہیں، اگر اس جگہ گیلا و  تر ہاتھ لگ جائے یا اس شلوار کا ناپاک حصہ بالٹی میں موجود پانی پر لگ جائے تو کیا یہ سب ناپاک ہو جائے گا؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ  وہ نجاست غلیظہ جو  پتلی اور بہنے والی ہو، جیسے:  آدمی کا پیشاب، اگر کپڑے یا بدن میں لگ جائے اور اس کا پھیلاؤ  5.94 مربع سینٹی میٹر (یعنی ایک روپے  کے بڑے سکے  کے بقدر ) یا اس سے کم ہو تو معاف ہے۔ اور معاف کا مطلب یہ ہے کہ: ایسی نجاست کے لگے ہونے کا  نمازی کو علم نہ  ہونے کی صورت میں ادا کردہ نماز ہو جائے گی؛  اعادہ لازم نہ ہوگا، البتہ نجاست قصدا  نہ دھونا اور  نجاست لگے کپڑوں  میں  نماز ادا کرنا  مکروہ  تحریمی ہوگا۔ اور اگر مذکورہ مقدار سے زائد  نجاست ہو ، تو اس کے ساتھ ادا کردہ  نماز ادا ہی نہیں ہوگی، خواہ نجاست لگے ہونے کا علم ہو یا نہ ہو۔

اسی طرح  نجاست غلیظہ  اگر گاڑھی ہے، جیسے: پاخانہ ، اور اس کا وزن میں ساڑھے چار ماشہ(یعنی 4.35 گرام) یا اس سے کم ہو تو معاف ہے، یعنی نماز  کا اعادہ لازم نہ ہوگا، البتہ قصدا نجاست لگے رہنے دینا، اور نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہوگا، اور اگر مذکورہ نجاست چار ماشہ سے زائد ہوتو معاف نہیں، پس مذکورہ  مقدار عفو کا تعلق  نماز ادا  ہوجانے، اور اعادہ لازم نہ ہونے سے ہے، نجاست  کے پاک ہونے سے نہیں،  لہذا  مقدار عفو لگی نجاست والے کپڑے  اگر پاک کپڑوں  کے ساتھ دھونا مقصود ہو تو دھونے سے قبل نجاست  لگی جگہ کو پاک کر لیا جائےاس کے بعد واشنگ مشین میں دیگر کپڑوں کے ساتھ دھویا جائے، اس لیے کہ مقدار عفو نجاست گاڑھی ہونے کی صورت میں بھی  دیگر مائع کے ساتھ مل جانے کی صورت میں گاڑھی  نجاست  کا مائع ہوجانے، اور مقدار عفو سے بڑھ جانے کا اندیشہ موجود ہے، اس صورت میں کپڑا پاک نہیں رہے گا، اور نجاست کا اثر پاک کپڑوں کو بھی ناپاک کردے گا، تاہم واشنگ مشین میں   پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ دھونے کے بعد  کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار  علیحدہ علیحدہ پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام   کپڑوں  اِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو تمام  کپڑے پاک ہوجائیں گے، ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"(الجواب )  مذی ایسی نجاست غلیظہ ہے جو بہنے والی ہے اور وہ نجاست غلیظہ جو بہنے والی ہو وہ مساحت کف یعنی ہتھیلی کے گڑھے کے برابر ( ایک روپیہ کے سکہ کے برابر ) معاف ہے، لہذا مذی مساحت کف کے بقدر یا اس سے کم ہو تو اسے کم مقدار کہا جائے گا اور اگر مساحت کف سے زیادہ ہو تو اسے کثیر مقدار کہا جائے گا، اس لئے کہ اگر مذی کپڑے پر لگی ہو اور پھیلاؤ میں مساحت کف سے کم ہے اور کسی وجہ سے اس کے ساتھ نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی، اعادہ ( دہرانے ) کی ضرورت نہیں۔ مراقی الفلاح میں ہے و عفی قدر الدرهم وزنا في المتجسدة وهو عشرون قیر اطاو مساحة في المائعة وهو قدر مقعر الكف فذاك عفو من النجاسة المغلظة (مرقى الفلاح مع طحطاوي باب الانجاس والطهارة عنها ص: ۸۳) اور معافی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز پڑھ لی اور بعد میں اس قلیل نجاست کا علم ہوا تو نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے اور نماز کے دوران اس نجاست کا علم ہوا اور نماز توڑنے میں جماعت فوت ہونے کا خوف ہو تو نماز نہ توڑے، اور اگر جماعت فوت ہونے کا خوف نہ ہو یا تنہا نماز پڑھ رہا ہو اور قضاء ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ نماز توڑ دے اور نجاست زائل کر کے نماز پڑھے، قضا ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز نہ توڑے، معافی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دھونے کو ضروری نہ سمجھے بلکہ اولین فرصت میں اسے دھو لینا چاہئے۔

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

(قوله وعفى قدر الدرهم) أى عفا الشارع عن ذلك والمراد عفا عن الفساد به والا فكراهة التحريم باقية اجماعاً أن بلغت الدرهم وتنويها ان لم تبلغ وفرعوا على ذلك ما لو علم قليل نجاسة عليه وهو في الصلاة ففى الدرهم يجب قطع الصلوة وغسلها ولو خاف فوت الجماعة وفى الثانى يكون ذلك افضل مالم يخف فوت الجماعة بان لا یدرك جماعة اخرى والا مضى على صلوته لان الجماعة اقوى كما يمضى في المسئلتين اذا خاف فوت الوقت لان التفويت حرام ولا مهرب من الكراهة الى الحرام افاده الحلبي وغيره (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۸۴ حوالہ بالا ) فقط والله اعلم بالصواب."

( کتاب الطهارات، رفیق نجاست غلیظہ کی مقدار عفو اور معافی کا مطلب، ٤ / ٥٤ - ٥٥، ط: دار الاشاعت )

اللباب في شرح الكتابمیں ہے:

(ومن أصابه من النجاسة المغلظة كالدم والبول) من غير مأكول اللحم ولو من صغير لم يطعم (والغائط والخمر) وخرء الطير لا يزرق في الهواء كدجاج وبط و إوز (مقدار الدرهم فما دونه جازت الصلاة معه: لأن القليل لا يمكن التحرز عنه؛ فيجعل عفوا، وقدرناه بقدر الدرهم أخذا عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرهم (لم تجز) الصلاة، ثم يروى اعتبار الدرهم من حيث المساحة، وهو قدر عرض الكف في الصحيح، ويروى من حيث الوزن، وهو الدرهم الكبير المثقال، وقيل في التوفيق بينهما: إن الأولى في الرقيق، والثانية في الكثيف، وفي الينابيع: وهذا القول أصح، وفي الزاهدي قيل: هو الأصح، واختاره جماعة، وهو أولى؛ لما فيه من إعمال الروايتين مع مناسبة التوزيع (وإن أصابته نجاسة مخففة كبول ما يؤكل لحمه) ومنه الفرس، وقيد بالبول لأن نجاسة البعر والروث والخشى غليظ عند أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد: خفيفة، قال الشرنبلالي: وهو الأظهر؛ لعموم البلوى بامتلاء الطرق بها، وطهرها محمد آخرا، وقال: لا يمنع الروث وإن فحش؛ لما رأى من بلوى الناس من امتلاء الطرق والخانات بها لما دخل الري مع الخليفة، وقاس المشايخ عليه طين بخارى؛ لأن ممشى الناس والدواب واحد. اهـ. (جازت الصلاة معه ما لم يبلغ ربع) جميع (الثوب) يروى ذلك عن أبي حنيفة لأن التقدير فيه بالكثير الفاحش، والربع ملحق بالكل في حق بعض الأحكام هداية. وصححه في المبسوط، وهو ظاهر ما مشى عليه أصحاب المتون، ... الخ

( كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ١ / ٥١ - ٥٢، ط: المكتبة العلمية، بيروت - لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاحمیں ہے:

"وعفي قدر الدرهم" وزنا في المتجسدة وهو عشرون قيراطا ومساحة في المائعة وهو قدر مقعر الكف داخل مفاصل.

قوله: "وعفي قدر الدرهم" أي عفا الشارع عن ذلك والمراد عفا عن الفساد به وإلا فكراهة التحريم باقية إجماعا إن بلغت الدرهم وتنزيها إن لم تبلغ وفرعوا على ذلك ما لو علم قليل نجاسة عليه وهو في الصلاة ففي الدرهم يجب قطع الصلاة وغسلها ولو خاف فوت الجماعة لأنها سنة وغسل النجاسة واجب وهو مقدم وفي الثاني يكون ذلك أفضل فقط ما لم يخف فوت الجماعة بأن لا يدرك جماعة أخرى وإلا مضى على صلاته لأن الجماعة أقوى كما يمضي في المسئلتين إذا خاف فوت الوقت لأن التفويت حرام ولا مهرب من الكراهة إلى الحرام أفاده الحلبي وغيره قوله: "وهو قدر مقعر الكف" أصله أن أمير المؤمنين عمر بن الخطاب سئل عن قليل النجاسة في الثوب فقال: إذا كان مثل ظفري هذا لا يمنع جواز الصلاة حتى تكون أكثر منه وظفره كان مثل المثقال قوله: "كما وفقه الهندواني" أي بين قولي من اعتبر الوزن مطلقا ومن اعتبر. '

( كتاب الطهارة، باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: ١٥٦، ط: دار الكتب العلمية )

2۔ نجاست اگرچہ مقدار عفو ہو، اس جگہ پر تر ہاتھ لگنے سے  اگر نجاست مائع ہوجائے، اور مقدار عفو سے زائد ہونے کے ساتھ ساتھ نجاست  کا اثر ہاتھ پر ظاہر ہوجائے، تو ہاتھ ناپاک ہوجائے گا، بصورت دیگر ہاتھ ناپاک نہ ہوگا، اور یہی حکم بالٹی کے پانی کا ہوگا۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاحمیں ہے:

"ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان.

قوله: "من عرق نائم" قيد اتفاقي فالمستيقظ كذلك كما يفهم من مسألة القدم ولو وضع قدمه الجاف الطاهر أو نام على نحو بساط نجس رطب إن إبتل ما أصاب ذلك تنجس وإلا فلا ولا عبرة بمجرد النداوة على المختار كما في السراج عن الفتاوى."

( كتاب الطهارة، باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: ١٥٨، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412101413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں