بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میقات سے بغیر احرام کے گزرنے کاحکم


سوال

اگرعمرہ کی نیت ہو اورکراچی سےفلائٹ ریاض کی ہو،پھرچارگھنٹےکےبعد ریاض سے جدہ کی ہو،کیاجدہ سےاحرام باندھ سکتے ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص کی نیت گھرسےہی عمرہ کی ہےتواس کےلیےمیقات سےپہلےعمرہ کااحرام باندھناضروری ہے،ریاض میقات سےباہر جب کہ جدہ میقات  کےاندر شامل ہے،لہٰذا یہ شخص ریاض سےتواحرام باندھ سکتاہے،لیکن جدہ سےاحرام باندھنادرست نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وحاصله: أن الشرط أن يكون سفره لأجل دخول الحل، وإلا فلاتحل له المجاوزة بلا إحرام. قال في النهر: الظاهر أن وجود ذلك القصد عند المجاوزة كاف، ويدل على ذلك ما في البدائع بعد ما ذكر حكم المجاوزة بغير إحرام، قال: هذا إذا جاوز أحد هذه المواقيت الخمسة يريد الحج أو العمرة أو دخول مكة أو الحرم بغير إحرام، فأما إذا لم يرد ذلك وإنما أراد أن يأتي بستان بني عامر أو غيره لحاجة فلا شيء عليه اهـ فاعتبر الإرادة عند المجاوزة، كما ترى اهـ أي إرادة الحج ونحوه، وإرادة دخول البستان، فالإرادة عند المجاوزة معتبرة فيهما."

(کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ج:2، ص:581،582، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لا يجوز لأحد منهم أن يجاوز ميقاته إذا أراد الحج أو العمرة إلا محرما."

(كتاب الحج، فصل بيان مكان الإحرام، ج:2، ص:164، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

‌"ومن ‌كان ‌داخل ‌الميقات كالبستاني له أن يدخل مكة لحاجة بلا إحرام إلا إذا أراد النسك فالنسك لا يتأدى إلا بالإحرام."

(كتاب المناسك، الباب الثالث في الإحرام، ج:1، ص:221، ط: دار الفكر بيروت)

فقط الله أعلم


فتوی نمبر : 144408102090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں