بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میقات سے بغیر احرام کے گزرنے اور عرفہ کے دن احرام پہننے کا حکم


سوال

 سعودیہ  میں مقیم کچھ  افراد حج کے سلسلے میں   خدمت کے لیے ایام ِحج سے35 دن پہلے اس نیت کے ساتھ بغیر احرام کے میقات کو عبور کرکے حدود حرم میں گیےتھے کہ خدمت کرنے کے بعد حج ادا کریں گے ،یوم عرفہ کو عرفات میں احرام باندھ کر مناسک حج ادا کیے ،کیا ان حضرات کا حج مکمل ہوگیا، نیز کیا ان پر دم  ہے؟ اگر ہے تو وہ حدود حرم سے بغیر دم ادا کیےنکلے ہیں تو اب کیا حکم ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ افراد کے  بغیر احرام کے   میقات سے گزرنے کی صورت میں ان پر دم  یعنی  ایک  چھوٹا  جانور  بکری  وغیرہ لازم ہوگئی ہے،اگرچہ اُ س وقت ان کی نیت خدمت کی تھی ، اور جب وقوفِ عرفہ سے قبل   احرام باندھ لیا تو  ان لوگوں کا حج ادا ہوگیا ہے، دم ادا کیے بغیر حدودِ حرم سے نکل گئے، تو شرعاًً کوئی حرج نہیں ہے، پس اب ایک دم حدودِ حرم میں دینے کا اہتمام کرلیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحرم تأخير الاحرام عنها) كلها (لمن) أي ‌لآفاقي (‌قصد ‌دخول ‌مكة) يعني الحرم (ولو لحاجة)غير الحج."

(كتاب الحج، ج:2،ص: 476، ط: دارالفکر بیروت)

غنیة الناسك میں  ہے:

"آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم  ولولتجارة أو سیاحة وجاوز آخر مواقیته غیر محرم ثم أحرم أولم یحرم أثم ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزه أو إلی غیره أقرب أو أبعد ، وإلی میقاته الذي جاوزه أفضل، وعن أبي یوسف: إن کان الذي یرجع إلیه محاذیاً لمیقاته الذي جاوزه أو أبعد منه سقط الدم  وإلا فلا، فإن لم یعد ولا عذر له أثم؛ لترکه العود الواجب."

(باب مجاوزة المیقات بغیر إحرام ،ص؛60، ط: إدارة القرآن) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں