بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منی میں رات کا کتنا حصہ ٹھہرنا ضروری ہے نیز منی میں تین راتوں سے کم ٹھہرنے کا حکم


سوال

1. اس سال الحمد اللہ حج کی سعادت نصیب ہوئی ،اب مسئلہ یہ ہے کہ میں نے منی میں تین راتوں کی بجائے دو راتیں قیام کیں، اب مجھے اس کا کیا کفارہ ادا کرنا ہے؟

2. لوگ کہتے ہیں کہ منیٰ میں رات کے آٹھ پہروں میں سے ایک پہر رہنا ضروری ہے ،اس حوالے سے آپ راہ نمائی کر دیجیے!

جواب

1. واضح رہے کہ 8 ذوالحجہ کوسورج طلوع ہونے کے بعد   مکہ سے منی جانا اوروہاں رات کا قیام کرنا ،پھر 10 ، 11 ، 12 ذو الحجہ کی راتوں  میں منی میں قیام کرنا سنت ہے، حاجی کے لیے ان ایام میں منی کے علاوہ کہیں اور قیام کرنا خلافِ سنت  ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں دم تولازم نہیں آئے گا ، البتہ سنت پر عمل نہ کرنے کی وجہ کی سے  کراہت کاارتکاب ہوا ہے۔

2. منیٰ میں رات گزارنا سنّت ہے ، لیکن اس کے لیے وقت کی تحدید نہیں ہے ، کہ اتنا وقت گزارنا لازم ہے ؛ اس لیے لوگوں میں جو مشہور ہے ، "کہ رات کےآٹھ پہروں میں سے ایک پہر ،یا آدھی رات ، یا ایک تہائی رات وغیرہ گزارنا لازم ہے" ، شرعاً اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ‌فيبيت ‌بها ‌للرمي) أي ليالي أيام الرمي هو السنة فلو بات بغيرها كره ولا يلزمه شيء."

(كتاب الحج، مطلب في طواف الزيارة، ج:2، ص:520، ط:سعيد)

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"(وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق."

(کتاب المناسک، الباب الأول في تفسير الحج، ج:1، ص:219، ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

"ثم يعود إلى منى فيقيم بها لرمي الجمار في بقية الأيام ولا يبيت بمكة ولا في الطريق، كذا في غاية السروجي شرح الهداية ويكره أن يبيت في غير منى في أيام منى كذا في شرح الطحاوي فإن بات في غيرها متعمدا فلا شيء عليه عندنا، كذا في الهداية سواء كان من أهل السقاية أو غيره، كذا في السراج الوهاج. وعندنا لا خطبة في يوم النحر كذا في غاية السروجي شرح الهداية."

(کتاب المناسک، باب الخامس، ج:1، ص:232، ط:رشيدية)

"الهداية في شرح بداية المبتدي"میں ہے :

"ويكره أن لا ‌يبيت ‌بمنى ليالي الرمي لأن النبي عليه الصلاة والسلام بات بها وعمر رضي الله عنه كان يؤدب على ترك المقام بها. ولو بات في غيرها متعمدا لا يلزمه شيء عندنا. خلافا للشافعي رحمه الله."

(كتاب الحج، ‌‌باب الإحرام، ج:1، ص:147، ط:دار احياء التراث العربي بيروت)

"غنية الناسك في بغية المناسك" میں ہے:

"ويسن أن يبيت بمنى ليالي أيام الرمى ،فلو بات بغيرها متعمدا كره لاشيء عليه عندنا."

(باب طواف الزيارة، فصل في العود إلى منى وما ينبغي له الاعتناء به أيام قيامه بها، ص:179، ط:ادارة القرآن)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں