ایک شخص پاکستان یاکسی دوسرے ملک سے حج کرنے کیلئے جاتا ہےاور اس آ دمی کا قیام دس دن مکہ معظمہ اور متصل ہی حج کے ایام میں میدان عرفات،منی،مزدلفہ میں بھی قیام ہے، ایسی صورت میں شرعاً وہ نماز قصر پڑھے گا یا مکمل نماز ؟موجودہ دور میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ منی اور مکہ معظمہ کی حدیں آ پس میں مل چکی ہیں ،کیا منی کی حدود مکہ معظمہ کی حدود میں شمار کی جائیں گی یا نہیں؟
واضح رہے کہ قصر کے لیے شرط یہ ہے کہ مسافر کسی ایک ہی موضع (جگہ)پندرہ دن یا پندرہ دن سے زیادہ قیام کی نیت کرے ،تب ہی وہ اتمام کرے گا ،الگ الگ مواضع میں پندرہ دن کے قیام کی نیت کرنے سے مقیم نہیں بنتا ہے ،نیز مکہ ،منی ، الگ الگ مواضع شمار کیے جاتے ہیں ،ان سب مواضع کوایک ہی موضع شمار نہیں کیا جائے گا۔
لہذا صورت مسئولہ میں جب مذکورہ شخص کی اقامت منی روانگی سے پہلے مکہ میں 10 دن ہے، یعنی 15 دن پورے نہیں ہو رہے،تو یہ آدمی مکہ میں انفرادی طور پر قصر نماز ہی پڑھے گا ،اور اسی طرح منی اور مزدلفہ اور عرفات جانے کی صورت میں بھی قصر کرے گا ، اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں اگر امام مقیم ہے تو پوری نماز پڑھے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح الخ"
(قوله فلو دخل إلخ) هو ضد مسألة دخول الحاج الشام فإنه يصير مقيما حكما وإن لم ينو الإقامة وهذا مسافر حكما وإن نوى الإقامة لعدم انقضاء سفره ما دام عازما على الخروج قبل خمسة عشر يوما أفاده الرحمتي."
(کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ المسافر جلد ۲ ص : ۱۲۶ ط : دارالفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح."
(کتاب الصلوۃ، فصل بیان ما یصیر المسافر به مقیما جلد ۱، ص : ۹۸ ط : دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100597
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن