بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں،بیوی کا علیحدہ رہنے کی صورت میں بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنے کا حکم


سوال

 اگر شوہر بیوی کو طلاق نہ دے، اور دوسرے شہر میں رہنے لگ جائے، کوئی رابطہ بھی نہیں کرے، تو بیوی کتنے عرصے بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہرکےبیوی سےبات چیت نہ کرنے اورعلیحدہ رہنےسے طلاق واقع نہیں ہوئی،میاں،بیوی کانکاح برقرارہے، خواہ کتناہی عرصہ گزر گیا ہو اور  جب تک نکاح برقرار ہے، عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،البتہ اگر شوہربیوی کے ساتھ رہ کر اس کے حقوقِ زوجیّت ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تو اس پر لازم ہے کہ اسے   طلاق دے کر نکاح سے الگ کردے،تاکہ وہ عزّت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کر سکے۔

 اگر شوہر کسی بھی طرح سےطلاق دینے پر  راضی  نہ ہو تو عورت کے لیے گنجائش ہے کہ شوہر کو کچھ مال وغیر ہ دے کر باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے،اگروہ خلع پربھی راضی نہہو تو اس صورت میں عورت کسی مسلمان جج کی عدالت میں شوہر کے   نان نفقہ  نہ دینے اور حقوق زوجیت کی عدم ادائیگی  کی بنیاد پر فسخِ نکاح کا مقدمہ  دائر کرسکتی ہے،جس کاطریقہ یہ ہے کہ  عورت اولاً عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے،اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کے نان نفقہ  نہ دینے   کو ثابت کرےاوراس پردوگواہ بھی پیش کرے،اگر عورت عدالت میں گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائےتوپھرعدالت شوہرکوبلاکربیوی کےحقوق اداکرنےکاکہے،اگروہ راضی ہوجائےتوٹھیک ،اگروہ راضی نہ ہویاعدالت میں حاضرہی نہ ہوتوپھرنکاح فسخ کرنےکافیصلہ کردے،جس کے بعد عدت گزار کر عورت  کادوسری جگہ نکاح کرنا  جائز  ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما تفسيره) شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق.

(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي."

(كتاب الطلاق،الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه ج : 1 ص : 348 ط : رشيدية)

ردالمحتار میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا. قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية و غيرها اهـ ."

(کتاب النکاح ،مطلب في النكاح الفاسد،3/132،ط:سعید)

فقہ السنۃ میں ہے:

"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة."

(کتاب الطلاق:ج:2، ص:299 ط: دارالکتاب العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

( کتاب الطلاق،الفصل الأول فی شرائط الخلع: ج:1، ص:488، ط:رشیدیة)

حیلۂ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففی مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام، فإن لم یثبت عسرہ أنفق أو طلق وإلا طلق علیه، قال محشیه: قوله:وإلا طلق علیه أی طلق علیه الحاکم من غیر تلوم .... إلی أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبی، فقال ابن القاسم: لها أن تفارق؛ لأن الفراق قد وجب لها، وقال ابن عبدالرحمن : لا مقال لها؛ لأن سبب الفراق هو عدم النفقة. قد انتهی وهو الذی تقضیه المدونة کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتہی."

(فصل فی حکم زوجة المتعنت ص : 73،ط : دارالإشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں