چار سے پانچ مہینے پہلے میرا بیوی سے جھگڑا ہواتو میں نے اسے ایک طلاق دی تھی ان الفاظ سے" میں آپ کو ایک طلاق دے رہا ہوں" اور اس کے بعد ساتھ رہنے لگے، اس کے بعد ابھی تین چار دن پہلے میری بیوی میکے چلی گئی، میں اپنی بچی سے ملنے گیا تو بیوی نے کہا کہ وہ سو رہی ہے اور مجھے ملنے نہیں دیا، جب میں واپس گھر جانے لگا تو میں نے بیوی کو فون کر کے کہا کہ میں آپ کو دوسری طلاق دے رہا ہوں، آپ گھر آ جاؤ، اس کے بعد بیوی کے گھر والوں نے رات میں مجھے بلایا، صلح کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی، اب میں دوبارہ گیا اپنی بیوی کو لینے تو میری بیوی نے کہا کہ آپ فتوی لیکر آ جائیں کہ ہم اب بھی ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ لہذ ا میری شرعی راہنمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں جب چار پانچ مہینے پہلے سائل نے لڑائی کے دوران اپنی بیوی سے یہ کہا کہ "میں آپ کو طلاق دے رہا ہوں"اس سےایک طلاق رجعی واقع ہوچکی تھی ،جب اس کے بعد دونوں میاں بیوی کی طرح ساتھ رہنے لگے تھے تونکاح برقرار رہااور اب کچھ دن پہلے دوبارہ سائل نے فون پر اپنی بیوی سے جب یہ کہا کہ " میں آپ کو دوسری طلاق دے رہا ہوں" تو اس سے سائل کی بیو ی پر دو سری طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور عورت کو ایام آتے ہوں، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک، اور اگر ایام ہی نہیں آتے تو تین ماہ تک) شوہر قولی یا فعلی طور پر رجوع کرسکتا ہے اور رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا" تو رجوع ہوجائے گا، اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی تو نکاح ٹوٹ جائے گاپھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، لیکن واضح رہے کہ رجوع یا نکاح جدید کرنے کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و كذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر."
(کتاب الطلاق،ج: 3، ص: 348، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
في المحيط: "لو قال بالعربية: أطلق، لايكون طلاقاً إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقاً."
(کتاب الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج: 1، صفحہ: 384، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100467
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن