بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملکیتی جائیداد فروخت کرنے کے بعد دوبارہ اس پر اپنی ملکیت جتانا


سوال

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں بقائمی ہوش و حواس اور مکمل مرضی سے اپنی جائز ملکیت از قسم زمین یا مکان یا کوئی دوسری چیز با اخذ  زر  (قیمت لے کر) کسی دوسرے شخص کو ایک طویل عرصہ پہلے بیچ دے، اور پھر بعد ازاں لالچ اور فساد کرتے ہوئے دوبارہ ملکیت کا کسی فورم پر حق جتائے اوردوبارہ اپنی ملکیت ظاہر کرئے تو ایسے شخص کے بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا احکام ہیں؟

جواب

اگر  کوئی شخص واقعتًا اپنی ملکیت کی  زمین  یا مکان وغیرہ کسی شخص کو باقاعدہ  سودا کرکے فروخت کردے تو سودا مکمل ہوجانے کے بعد وہ زمین یا مکان  اس کی ملکیت سے نکل کر  خریدنے والی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے،  لہذا بعد میں دوبارہ فروخت کرنے والے کا اس پر اپنی ملکیت جتانا ناجائز اور ناحق ہے۔اور دوسروں کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے والوں پر قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

ارشادِ باری تعالی ہے:

{وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}[البقرة: 188]

ترجمہ:اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق (طور پر) مت کھاؤ  اور  ان کے جھوٹے مقدمہ کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کے مالوں کا  ایک حصہ بطریقِ گناہ  (یعنی ظلم کے) کھا جاؤ، اور تم کو اپنے جھوٹ اور ظلم کا علم ہو۔(از بیان القرآن)

          حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «من أخذ شبرًا من الأرض ظلمًا فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»."

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریۃ، ط؛ قدیمی)

         ترجمہ:حضرت سعید  بن زید کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  جو شخص( کسی  کی ) بالشت بھر زمینبھی   از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں  بطورِ طوق ڈالی  جائے گی۔

(3/147، دارالاشاعت)

فتاوی عالمگیری میں ہے؛

"لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، كذا في البحر الرائق."

(2/167، باب التعزیر،ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں