بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملکیت میں آنے سے پہلے چیز فروخت کرنا


سوال

ایک بندہ مجھ سے کشمش خریدنا چاہتا ہے ،میں دکاندار سے سیمپل لے کر اس کی تصویر اور ویڈیو بندے کو بھیج دیتا ہوں اور ریٹ بتا دیتا ہوں، جب ان کو مال پسند آ جائے ،ریٹ طے کر کے مطلوبہ مال دکاندار سے اٹھا کر ان کو بھیج دیتا ہوں کیا یہ صورت جائز ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر "مبیع" (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ "فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی"، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع (فروخت کنندہ)کی ملکیت میں "مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر  سائل  کشمش خریدنے والے سے سودا   کرلے  اور ابھی تک کشمش اس کی ملکیت میں نہ آئی ہوتو یہ صورت جائز نہیں ہوگی ،البتہ  اگر  سائل کشمش خریدنے والے سے وعدہ بیع کرے ،یعنی یہ کہے کہ ،یہ چیز میرے پاس نہیں ہے ،میں آپ کو  اتنے پیسوں میں مہیا کردوں گا وغیرہ ، ابھی سودا مکمل نہ کرے ،بلکہ کشمش ملکیت میں آنے کے بعد پھرمکمل  سودا کرے تو یہ صورت جائز ہے ۔

حدیث میں ہے :

"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك."

(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:۵،ص:۳۶۲،دارالرسالۃ العالمیۃ)

مرقاة المفاتیح میں ہے :

"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."

(باب المنهی عنها من البیوع،ج:۵،ص:۱۹۳۷،دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع الخ،ج:۵ ؍۱۴۷، ۱۴۸،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں