بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالی جرمانے کا حکم


سوال

جرگے کے وقت جو مچلکہ جمع کیا جاتا ہے دو فریقین میں یہ ٹھیک ہے؟ اور اگر کوئی ایک فریق جرگے سے اور ان کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دے تو جمع کی ہوئی رقم جرگہ ممبران ضبط کرنے کا حق رکھتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی پر  مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہے۔  صورتِ مسئولہ میں  پنچائت کے ممبران نے  فریقین سے جو رقم لی ہے، ممبران کو اس کے ضبط کرنے حق نہیں ہے، جس فریق سے  جو رقم لی گئی ہے وہ اسی کی ملکیت ہے، چاہے وہ فریق جرگہ کے فیصلے پر متفق ہو یا انکاری، دونوں  صورت میں  ممبران جرگہ پر لازم ہے کہ وہ رقم اس فریق کو واپس کریں۔ مالی جرمانہ عائدکرنا اور وصولی کی صورت میں اسے ضبط  کرنا اور واپس نہ کرنا دونوں  ناجائز ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان، ثنا حسن بن هارون بن سليمان، ثنا عبد الأعلى بن حماد، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".

( السنن الكبرىللبيهقي، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارًا، ج: 6، صفحہ: 166، رقم الحدیث: 11545، ط:  دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

( کتاب الحدود، باب التعزیر، ج: 4، صفحہ: 61، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں